اس کتاب نے مجھے ایک شاعر سے ھی نہیں، ایک دانشور، ایک فلاسفر اور ایک صاحب عقل و دانش سے متعارف کروایا ھے۔ یہ کتاب شاعری کی کتاب ھے۔ حکایت کی کتاب ھے، علم کی کتاب ھے، اور تہذیب کی کتاب ھے ۔ اس معاشرے کی تہذیب کی ۔ جس میں راشد زندہ ھے یا یوں کہنا چاھئيے کہ اس میں صرف راشد مراد جیسے لوگ ھی زندہ ھیں ۔ سانس لیتے ھوئے مگر درد محسوس کرتے ھوئے وہ درد جو ان کا اپنا نہیں بلکہ اوروں کا ھے مگر یہ اسے بیگانہ نہیں سمبھتے ۔ اسی لئے یہ وہ آنسو بہاتے ھیں جو دوسروں کے حصے کے ھوتے ھیں ۔ راشد وصیح تر سوچ کا مالک ایک خوبصورت انسان ۔ اس کتاب کا ھر ھر لفظ اس کی اپنی تہذیب سے، اپنے معاشرے سے اور اپنے لوگوں سے محبت کی علامت بن کے ابھرتا ھے ۔ اور وہ شعر کہنے کے فن کو اپنا کتھارسسس سمجھتا ھے ۔ اک رفو گر کی مہربانی ھے ورنہ جھولی میں اتنے چھید لئے لوٹ کر گھر میں کس طرح جاتا وہ محبوب کے بچھڑنے کا گلہ کرتا ھے تو اس کے زندہ رھنے پہ شکر ادا کرتا ھے اور اس کے شہر چھوڑ جانے کو بھی اپنے اور اس کے لئے بہتری کا اور ھجر کی مستقل مزاجی کا منبع سمجھتا ھے۔ مگر اسکی پازیب کی آھٹ بھی شاعر کر زندگی کا احساس دلانے کے لئے کافی ھوتی ھے ۔ راشد نے ھجرت کی ھے اور ایک سے زیادہ بار کی ھے جہاں وہ اپنی خواھش وطن کا اظہار کرتا ھے تو اسکا بھی سلیقہ ایسا ھے کہ وہ ھر ھجرت زدہ کا دکھ بن جاتا ھے لوٹ کر اس لئے نہیں جاتا شہر آباد ھے مگر اس میں کوئی پہچانتا نہیں مجھ کو وہ کہتا ھے اور میری گردن میں طوق بھی سلامت ھے یہ کونسا طوق ھے کیسا طوق ھے۔ شعر گوئی کا، یا شعر گوئی کی اذیت کا، سچ کایا سچ بولنے کی قیامت کا، حرف کا طوق یا لفظ کا، ھجرت کا یا حب الوطنی کا ۔ محبت کا یا محبت کی اذیت کا۔ بے گھری کا یا بے گھر ھونے والوں کا۔ اس کی شاعری میں یہ سب طوق اس کے قلم کو گردن سے لپیٹتے نظر آتے ھیں ۔ وہ چاھے امریکہ ھو یا انگلینڈ یا پھر پاکستان، وہ ھر ملک ھر سرحد کے لوگوں سے مخاطب ھو کر کہتا ھے رات سڑکوں پہ کاٹنے والو شام سے قبل تو پرندے بھی لوٹ جاتے ھیں آشیانوں کو راشد نے گرچہ غزل بھی کہی ھے مگر وہ بنیادی طور پہ نظم کا شاعر ھے۔ مختصر ترین تحریر میں وہ بڑی سے بڑی سچائی کو، ایک طویل تقریر کو، ایک سمندر سے گہرے کرب کو اس روانی سے لکھ جاتا ھے کہ کبھی کبھی تو ایسے لگتا ھے کہ سمندر کی گہرائی میں چھپی ساری سچائی، سارا خوف، ساری حقیقت، سارا درد، سارا خوف اسکے پانی کی چادر پہ نمودار ھوگيا ھو ۔ وہ سورج سے بھی شکوہ کرتا ھے تو بھلا لگتا ھے کہ شاعر کو شعر کہنے کے لئے رات کے سکوت میں روشنی درکار ھوتی ھے ۔وہ اپنے رونے کی بات کرتا ھے تو اپنے قاری کا دل چیر دیتا ھے۔ وہ بارش بھی مانگتا ھے تو سوکھتے دریا کے لئے ۔ اسے اپنی اور اپنے لوگوں کی جیت کا اتنا ھی یقین ھے جتنا کہ شب کے دامن سے سحر کے نمودار ھونے کا اور یہی یقین اسے راشد مراد بناتاھے۔ راشد فطرت کا، رنگ و نور کا اور طلسم کا شاعر ھے راشد کی یہ کتاب 128 صفحات پہ مشتمل ھے اور اس پہ غافر شہزاد کا خوبصورت تبصرہ موجود ھے۔ اور احمد ندیم قاسمی کا راشد کی نظموں کی طرح مختصر اور جامع تبصرہ بھی راشد کی اس سے پہلے بھی شاعری، اردو کالم اور انگلش کالم کی بالترتیب تین کتابیں بات شناسائی کی، سیکنڈ گیس، اور کھریاں کھریاں موجود ھیں اور اللہ کرے زور قلم اور زیادہ زندگی کی مراد ھے راشد گھپ اندھیرے کے بعد ھے راشد کب یہ لیتا ھے مانگ کے خوشیاں اپنےغم میں ھی شاد ھے راشد گل انوکھا ھے اپنے گلشن کا ھر خزاں میں آباد ھے راشد کیا اسے داد دوں میں شعروں پہ خود ھی شعروں پہ داد ھے راشد ثمینہ رحمت ۔ لندن —

Post a Comment