مرنا بھی آسان نہیں تھا

جتنا اب کے بار ھوا ھے
دل اتنا ویران نہیں تھا

رکنا تھا دشوار بہت ہی
چلنا بھی آسان نہیں تھا

منظر کی تاریک فضا میں
سورج کا امکان نہیں تھا

تتلی کی تصویر پڑی تھی
ٹیبل پر گلدان نہیں تھا

پھر وہ سائیں سائیں کیوں تھی
رستہ گر سنسان نہیں تھا

حیرت مجھ پر برس رہی تھی
لیکن میں حیران نہیں تھا

اس کمرے میں عمر گزاری
جس میں روشندان نہیں تھا

کھانے کی جو میز سجائی
گھر میں دستر خوان نہیں تھا

مجھ سے ہی منسوب ھوا ھے
میرا جو فرمان نہیں تھا
سحر تاب رومانی

Post a Comment