ہر چند اس سے پہلے بھی رسوا کیا گیا
اس بار کچھ زیادہ تماشا کیا گیا
پھیلا کے آفتاب سے پرچھائیوں کا خوف
ظلمت میں بستیوں کو اکیلا کیا گیا
ہانکا گیا سوار کو پیدل کے زور سے
اور آخری لکیر پہ پسپا کیا گیا
آہو قفس میں ڈال کے کھیلا گیا شکار
اس کی کمین گاہ کو صحرا کیا گیا
پھولوں کے رنگِ سعد میں ملبوس شاخ کو
کانٹوں کی دلگی میں برہنا کیا گیا
جو کام ہو گیا اسے رکھا گیا الگ
اک اور کارِ نو کا تقاضا کیا گیا
ہر اک جواب صفر پہ رکھنے کے واسطے
جو ہندسہ تھا جمع کا منہا کیا گیا
اعجاز گل

Post a Comment