جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیئرنگ کراس کا رُخ کر کے
خراماں خراماں پٹڑی پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں، گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں، بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی وہ مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھرپور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھات کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی۔ مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر نہیں معلوم ہوتا تھا اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز تیز قدم اٹھا رہے تھے، اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔ اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے، مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی، مگر اس نے ”نو تھینک یو“ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔ جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ بارونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی ہی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی۔ گویا کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے۔ راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی، مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رُخ نہ کیا اور سیدھا چیئرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔ ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت پیدا ہو گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کے بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرتا تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک اس کی پرواہ کیے بغیر کھیل میں مصروف رہے، مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔ نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بینچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس کی یہ شدت ناخوشگوار نہ تھی، بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا، وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے، تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں۔ حصول لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسب توفیق ریسٹورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محفوظ ہو رہے تھے۔ مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹڑی پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریح طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔ نوجوان سیمنٹ کی بینچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبہ اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو، زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے، ہر قسم کے اوور کوٹ قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خاکی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جنہیں نیلام میں خریدا گیا تھا۔ نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا، مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا، پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ بانہوں کی کریزیں بڑی نمایاں، سلوٹ کہیں نام کو نہیں، بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔ ایک لڑکا پان بیڑی سگرٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا تو نوجوان نے آواز دی۔ ”پان والا“ ”جناب“ ”دس کا چینج ہے؟“ ”ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟“ ”نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟“ ”اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلیے۔ لیں گے کیا آپ؟“ ”نہیں نہیں ہم خود چینج لائیں گے۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ“۔ لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے مصفا دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک چھوٹی سی سفید رنگ کی بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بینچ کے نیچے اس کے قدموں کے پاس آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بینچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا ”پیور لِٹل سول!“ اس کے بعد وہ بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ سینما کے برآمدے میں بھیڑنہ تھی، صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔ تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں، ایک خاص شان استغنا کے ساتھ، مگر صنف نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اچانک ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہرنکل آیا۔ اب7 بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹڑی پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریسٹوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لیے کھڑے تھے، کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے، کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے، کیونکہ وہ غل غپاڑا نہیں مچا رہے تھے، بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لیے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلاتکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگ دار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی، پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ایک ہسپانوی گٹار، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، پر ناقدانہ نظر ڈالی، اور اس کے ساتھ قیمت کا جوٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پرزوں کو ٹٹولا اور پھر کوربند کردیا۔ دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔ ”گڈا یوننگ سر۔ کوئی خدمت؟“ ” نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گرامو فون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے“۔ فہرست لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کردیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک سٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا اور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے، جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا، نے گرم جوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔ ”ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟“ ”چودہ سو بتیس روپے“۔ نوجوان نے اپنی بھنوؤں کو سکیٹرا، جس کا مطلب تھا ”اوہو اتنی“۔ دکاندار نے کہا ”آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کرسکتے ہیں کردیں گے“۔ ”شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں“۔ ”شوق سے دیکھیے۔ آپ ہی کی دکان ہے“۔ وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹرگشت شروع کردی۔ اب وہ ہائیکورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزررہاتھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی طبیعت کی چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا تھا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹڑی پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور ان میں کافی فاصلہ رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی۔ مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی ”او سوری“ کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔ نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹرگشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسامست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکاری ہی نہ تھا۔ مگر اس دلچسپ جوڑے نے، جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حددرجہ مشتاق بنادیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہوسکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔ اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاک خانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھرکورکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلوڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہوجائے کہ ان کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ اس لیے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہیے۔ جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا۔ مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہوگی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لیے گاڑی کی رفتار کم کی۔ وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ وہ تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے نمبر دیکھو۔ مگر لاری ہوا ہوچکی تھی۔ اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہوگئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹرسائیکل پر جارہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچل گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔ فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کے بڑے ہسپتال روانہ کردیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبہ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دونو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے ازراہ درد مندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑانہ لے جائے۔ شہناز نے گل سے کہا” کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ“۔ گل دبی آواز میں بولی۔” خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے“۔ ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟“ ”نہیں بھاگ گیا۔“ ”کتنے افسوس کی بات ہے“۔ آپریشن روم میں اسٹنٹ سرجن اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپارکھا تھا۔ اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مرمر کی میز پر لٹادیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبودار تیل ڈال رکھا تھا۔ اس کی کچھ کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سر کی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔ اب اس کے کپڑے اتارے جارہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک کا گلو بند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔ نوجوان کے گلو بند کے نیچے نکٹائی اور کالر، کیا سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بہت بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جابجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سویٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آرہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپارہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سویٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے اک پرانی دھجی سے جوشاید کبھی نکٹائی ہوگی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھنٹوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا۔ اور کئی جگہ کھونچیں بھی لگی تھیں۔ مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لیے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گل کی آنکھیں چار ہوئیں۔ بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے۔ مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں۔ اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آرہی تھیں۔بلاشبہ اس وقت تک وہ دم توڑچکا تھا۔ اسی کا جسم سنگ مرمر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی اس برہنگی نے اسے خجل کردیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرارہا ہے۔ اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں۔ ایک چھوٹا ساسیاہ کنگھا، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا آدھا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں لوگوں کے نام اور پتے لکھے تھے، نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹرگشت کے دوران میں اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھمادیئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال لیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھوگئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔

1 تبصرے

  1. انسان اپنی ظاہری حالت سے کبھی پہچانا نہیں جا سکتا کیوں کے ظاہری حالت اکثر دھوکہ دیتی ہے. لکن کچھ لوگ اپنی محرومیوں کو چھپانے کے لیے بھی ظاہری حالت میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ لوگ ان کی حیثیت کا مزاق نہ اڑائیں. اس سے ان کی عزت نفس بچی رہتی ہے. اس نوجوان کی کہانی سے انسان کی ظاہری اور پوشیدہ دونوں حالتوں میں تضاد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے.

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں