(مشرف عالم ذوقی)
نثری شاعری کی اہمیت میرے نزدیک بہت زیادہ ہے۔ اس کا ایک جواز تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے خیالات کو پیش کرنے کی جوآزادی یہاں میسر ہے وہ غزلیہ شاعری میں نہیں۔ ممکن ہے شعراءیا شعر پر تنقید کرنے والے اسی آزادی کو نثری شاعری کا عیب تصور کریں، یہ حق ان کو حاصل ہے اور اس کا استعمال پچھلی دو ایک دہائیوںسے کیا بھی جارہا ہے۔
ہرحگہ نثری شاعری پر نہ صرف شروع سے ہی اعتراضات ہوتے رہے ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اعتراضات کرنے الوں کی قطار بھی بڑھتی رہی ہے۔ ان میں آج بھی ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو نہ صرف نرگسیّت اور محبوبیت کے درمیان جھولتے ہوئے الفا ظ کی چاشنی، ریاکاری اور مکاری میں ڈوبے رہے ہیں۔ بلکہ بقول شخصے، صحرا میں اذاں کی طرح شاعری کی تخیلی اڑان اور الہامی طبیعت کولے کر طرح طرح کی خوش فہمیوں کا شکار بھی رہے ہیں۔ گویا شاعری نہیں ہوئی کوئی آسمانی صحیفہ یا غیبی صدا ہوگئی اور شاعری سے الہام کا رشتہ تو روز ازل سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ جہاں تک فکری اُفق کو چھونے اور نئے جہان کی بازیافت کا سوال ہے تو اس غیبی صدایا آسمان سے صحیفہ کی صورت اتری ہوئی شئے یعنی غزل نے نہ صرف تنگ دامانی کے فضا قائم کی ہے بلکہ باور کرایا ہے کہ صحیفہ، صحیفہ ہوتا ہے، مشینی رویے، مشینی رویے ہوتے ہیں۔کسی صحیفہ کو مشینی رویوں پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔
اردو کی شاعرانہ طبیعت میں روزاوّل سے ہی یہ بات ڈال دی گئی کہ شاعر تو ناموجود کی تخلیق کرتا ہے۔ نتیجتاً ___ناموجود کی تخلیق میں، ایک بڑے طبقے نے اپنی عمریں وقف کردیں۔ یہی نہیں___ ناموجودکی کیفیتوں کا خمارا بھی بھی باقی ہے۔ ناموجود کی تخلیق کے سوتے ابھی بھی سوکھے نہیں ہیں، پوری شدت سے جاری وساری ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا اردو کا شاعر ناموجود چھوڑ کر موجود چیزوں کی بحث میں پڑتا ہی نہیں،تخلیق کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے۔
غزلیہ شاعری جہاں ناموجود کے احساس کے بطن سے جنم لیتی ہے، وہیں نثری شاعری کا مزاج جداگانہ ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں، نثری شاعری بلاواسطہ یا بالواسطہ موجود سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ وہ بھولے بھٹکے بھی ناموجود پناہ گاہوں، میں پناہ نہیں لے سکتی۔ نثری شاعری کو، تنقیدی شعور رکھنے والوں کے عذاب سے بھی اسی لئے گزرنا پڑا کہ نہ وہ ابہام کے تقاضوں کو تسلیم کرتی ہے، نہ وہ مبہم قسم کی جدیدیت یا تجریدیت کے مابین کوئی راستہ نکالتی ہے۔ وہ آوارہ ندی جیسی ہے۔ کبھی خیالوں کے باندھ کو توڑا، کبھی کسی سے جاٹکرائی.... پتھروں میں شگاف کیا، تیز رواں دواں لہروں میںراستہ بنایا۔ ندی کبھی گرجی، کبھی چیخی، کبھی خاموش ہوئی،کبھی اس طرح چنگھاڑی کہ سرکش لہروںسے ایک جہاں میں اضطراب یا ہلچل پیدا ہوگئی۔
نثری شاعری کی انہی خوبیوں نے مجھے اس کا معترف ومداح بنایا ہے۔ کیا کیجئے کہ مجھے آوارگی کی اس شدت میں لطف آتا ہے۔ مجھے اس کا بانکپن پسند ہے۔ اس کی سرکشی اور باغیانہ فطرت میں مجھے اپنا اوراپنے عہد کا چہرہ نظر آتا ہے۔ میں ان سرکش آوارہ لہروںکی آغوش میں سکون محسوس کرتا ہوں اور ایک خاص طرح کی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔
نثری شاعری کے مخالفین کا سب سے سخت ردّعمل یہ ہے، کہ آپ اسے صنفِ شاعری میں کیوں شامل کرنا چاہتے ہیں؟ ”نیم شاعر مرثیہ گو“ کے طرز پر جنھیں شاعری میں اپنے خیالات پیش کرنے کا سلیقہ نہیں آتا، وہی اسے معتبر ٹھہرانے کی صف میں پیش پیش رہے ہیں۔
احمد فراز نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا۔
”لیکن ایک خرابی جو در آئی ہے۔ وہ ہے.... نثری نظم ،جو سہل نگاری کا نتیجہ ہے۔ پہلے آپ پابند شاعری میں اپنے آپ کو منوائیں، اس میں تنگ دامانی کا احساس ہو تو نثری شاعری کا تجربہ کریں ورنہ یہاں تو ماجرا یہ ہے کہ جو بھی اٹھتا ہے، نثری شاعری کرلیتا ہے۔ اب تو ایسی نثری شاعری ہورہی ہے جس میں کوئی Contentہی نہیں ہے۔“
فراز نے جو بات نثری شاعری کرنے والوں کے لئے کہی ہے، کچھ دنوں پہلے تک وہی بات کیڑے مکوڑوں کی طرح پیدا ہونے و الے شاعروں کے بارے میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں بھی نثری شاعری نظر نہیں آئی، جتنی بڑی تعداد میں شاعردکھائی دے جاتے ہیں اور آپ مذاق مذاق میں کہہ دیتے ہیں۔ ’بس پتھر چلا کر دیکھئے، جس گھر میں گرے گا وہاں دو چار شاعر ضرور ہوں گے اور جہاں تک Contentکی ناموجودگی کا سوال ہے، نثری شاعری کرنے والوں کے یہاں تو پھر بھی یہ مل جائے گا اور شاعری تو بغیر Content کے مستقل ہی جنم لیتی رہی ہے۔
نعما ن شوق سے احمد فراز تک نثری شاعری کے بارے میں جو رائے بنی ہے، وہ کم وبیش یہی ہے۔ پاکستان سے نکلنے والے ایک خوبصورت رسالے آثار(مدیر:فیصل عجمی، ثمینہ راجہ) کے سالنامہ میں شہزاد منظر کا ایک مضمون شائع ہوا ۔ قرة العین حیدر کے ساتھ چند لمحے۔
میں شہزاد منظر اور مس حیدر کے درمیان مکالمے کا ایک دلچسپ حصہ مندرجہ ذیل سطور میں نقل کررہا ہوں۔
عینی : ”....فساد برابر ہورہے ہیں، لوگ لکھتے نہیں ہیں اتنے بے حس ہوگئے ہیں۔ لیکن میں لکھ رہی ہو۔ اس کے بارے میں برابر۔ ابھی بھی میں نے لکھا تھا اس بارے میں۔ ’عالم آشوب ‘لکھا تھا، جسے آپ نے پڑھا ہوگا۔ اس کا عنوان تھا۔ قیدخانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے۔“
شہزاد: اس افسانے کے بارے میں تھوڑی سی بات کرنا چاہتا ہوں۔
عینی: وہ افسانہ ہے ہی نہیں۔ وہ تو عالم آشوب ہے۔
شہزاد: عالم آشوب تو ہے لیکن آپ اسے کس صنف میں رکھیں گے؟
عینی: میں بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ یہ عالم آشوب ہے۔ بعض اوقات مصنف جو کچھ لکھتا ہے، اس کا کوئی فارم نہیں ہوتا۔ مصنف کو کچھ کہنا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ مخصوص صنف میں ہی کہے۔“
قرة العین حیدر کی یہ رائے قابل غور ہی نہیں، بلکہ اس رائے کو نثری نظم کی حمایت میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ تخلیقیت کا مسئلہ بھی عجیب ہے۔ کوئی کوئی موضوع ایسا ہوتا ہے کہ مصنف الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ اسے کس طرح برتا جائے۔
بہت ممکن ہے کہ اسی تخلیقی کنفیوژن سے آزاد غزل بھی معرض وجود میں آئی ہو۔ گو آزاد غزل کا چلن ان دنو ںکچھ کم ہوا ہے مگر آزاد نظم، نثری نظم کی طرح آزاد غزل کی اہمیت سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا۔ اس لئے بھی کہ شاعری آج فقط ناموجود، کا حصہ نہیں ہے۔ وہ پورے ”وجود“ کے ساتھ عہد حاضر کے مسائل کی دیواروں پر دھوپ کی طرح پھیل جانا چاہتی ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں پھیل چکی ہے__ شدت سے پھیلتی جارہی ہے۔
نثری نظم کو آپ ایک خوبصورت احساس Feelingسے تعبیر کرسکتے ہیں۔ لیکن اس احساس کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں یہ احساس کسی ایک نقطہ یا لمحے سے شروع ہو کر مکمل کائنات کا احاطہ کرلیتا ہے۔ عام طور پر نظم کا شاعر،نثری نظم کی تخلیق کے دوران اپنے احساس کو آوارہ لہروں کی طرح چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح ایک لہر سے کتنی لہریں بنتی چلی جاتی ہیں اور شاعر لہروں کی ان لڑیوں سے اپنے خیالات کا تانا بانا بنتا چلا جاتا ہے۔ صنف غزل ہو یا آزاد نظم، وہاں یہ لہریں اتنی آوارہ یا آزاد نہیں رہ سکتیں۔ غزل ایک خاص طرح کی بندش یا ڈسپلن کا نام بھی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ غزل کے الگ الگ اشعار ان آوارہ لہروں یا کیفیات کو سمیٹنے کا ہنر جانتے ہیں، تو اس صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن الگ الگ رنگوں سے ’کیفیات‘ کی فضا مکدر بھی ہوسکتی ہے جبکہ نثری نظم اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ان آوارہ لہرو ںکو قبول کرلیتی ہے پھر اس سے انحراف یا انکار کیوں؟
مثال کے طور پر میں کچھ نظمیں پیش کرنا چاہوں گا۔
تکمیل
بس آنکھیں چاہئیں
مجھے آنسوﺅں کی پرورش کرنا ہے
انتظار کا بیج بونا ہے
آنکھیں چاہئیں تاکہ میرے بے آواز آنسوﺅں کو
کوئی راہ مل سکے
آنکھیں چاہئیں تاکہ میں سوختہ خوابوں کو
اکٹھا کرسکوں
کہیںسے مجھے ڈھونڈھ کر
آنکھیں لادو
بس،
ایک جسم کی ضرورت ہے
دکھوں کو پروان چڑھانا ہے
جسم چاہئے
تاکہ دنیا کی نگاہوں سے
دکھ چھپ جائیں
دکھوں کو اپنے لئے گھر چاہئے
جسم چاہئے
کہیں سے مجھے ڈھونڈھ کر لادو
بس ایک روح چاہئے
آگہی سے لبریز
جنوں سے پُر چاہئیں
زیاں کی خواہش رکھنے والی ایک روح چاہیے
فکر فردا جس کی ہمرکاب ہو
محبت کی جسے خواہش ہو
اور اس کی خاطر سرگرداں ایک روح چاہئے
کہیں سے مجھے یہ ڈھونڈکر لادو
مجھے آنسوﺅں کا تقاضا کرنے والی آنکھیں
دکھوں کو پروان چڑھانے کے لئے جسم
اور آگہی کی روح چاہئے
مجھے انسان بننا ہے
ناجیہ احمد
یہ ایک خوبصورت نظم ہے۔ انسان کی تکمیل میں کن عناصر کی ضرورت پڑتی ہے۔ آنکھیں، دکھوں کو پروان چڑھانے کے لئے ایک جسم، دکھ کو چھپانے کے لئے ایک گھر، آگہی سے لبریز روح، آنسوﺅں کی پرورش کرنے اور آنکھوں میں رکھنے کے لئے انتظار۔ اس نثری نظم میں بیک وقت کئی کیفیات ہیں۔ دکھ سکھ کے سارے ”انسانی موسم“ ہم آہنگ ہیں۔ مجھے لگتا ہے۔ انسان کی تکمیل کا یہ خیال جس طرح نثری نظم کے ذریعہ ابھر کر سامنے آیا ہے، ممکن ہے ناجیہ اس صوتی آہنگ کو کسی بھی دوسری صنف میں برتنے میں شاید اتنی کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ اب ایک اور نظم ملاحظہ کیجئے۔
شرعی سرکس
کل تک
ضرور مجھے یقین تھا کہ
بہرحال قاضی کی مدد سے
ایک شرعی
اور انتہائی محفوظ ترین لو اسٹوری
شروع کی جاسکتی ہے
اور میرے یقین نے آخر مجھے
میری زندگی کے سب سے بڑے ایڈونچر سے
دوچار کردیا
اور آج
ایک خطرناک رسی پر
اونٹنی کی طرح چلتے چلتے
میں گارہی ہوں
یارب، یہ شرعی عشق تو سچ مچ
ایک سرکس کی طرح ہے
جس میں دو جسم چاہے ان چاہے
نام نہاد وفا کی رسی پر
سرکسانہ مشاقی سے چلتے آرہے ہیں
صدیوں سے
اور اب خوابوںمیں بھی ہنسنے کے سب رستے
ایک قاضی بند کرکے چلا گیا ہے
عذرا پروین
محسوس کیجئے تو عذرا کی اس نظم میں تلخیاں ہی تلخیاں پیوست ہیں۔ یہ نظم ازدواجی زندگی کے بحران سے گزرتی ہے اور کئی سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے۔ قاضی کی مدد سے شرعی اور انتہائی محفوظ ترین لو اسٹوری شروع کرنے کا مطلب سیدھا اور صاف ہے۔ یعنی رشتہ¿ ازدواج میں منسلک ہو جانا۔ عذرا اسے ایک خطرناک ایڈونچر سے تعبیر کرتی ہیں، جیسے کوئی نٹنی رسی پر چل رہی ہو۔ یعنی ذرا سا بھی توازن میں فرق آیا اور کھیل بگڑا۔ عذرا اسے شرعی سرکس سے تعبیر کرتی ہیں کہ صدیوں سے ایک قاضی کے کہے پر یہ سرکس مسلسل اپنا تماشہ دکھائے جارہا ہے۔ ا Irony of thought کی مستحق میرے نزدیک صرف اور صرف نثری نظم ہی ہوسکتی ہے۔ عذرا کی دوسری بہت ساری نظموں کے بیچ، یہ نثری نظم اس لئے بھی اپنی خاص چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہے کہ رشتہ¿ ازدواج کو سرکس کی جزئیات کے ساتھ جوڑ کر عذرا نے نشہ¿ تخیل کو دو آتشہ بنادیا ہے۔
پاکستان میں ان دنوں بڑی تعداد میں نثری نظمیں لکھی جارہی ہیں۔ کچھ نثری نظموں کے نمونے ملاحظہ کیجئے۔ لیکن اس سے قبل نصیر احمد ناصر کا تذکرہ ضروری ہے۔ان کی نثری نظمیں نہ صرف قبولیت کے دور سے گزرچکی ہیں بلکہ ابھی بھی ان نظموں پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔
احمد ہمیش نے نصیر احمد ناصر کی نظموں کے بارے میں لکھا۔
”نصیر احمد ناصر کے خواب مسلسل کو معمولی استعارہ سمجھ لینا اس عہد کی سب سے بڑی شعری نارسائی اور ادبی بددیانتی ہوگی۔ ناصر کے خواب کی تعبیر وتفہیم کے لئے محض اس خاکی کُرّے پر ارتقائے حیات ہی کا نہیں، بساط کائنات کی لامتناہیت میں وجود آدم کی بے بساطی کا شعور ولاشعور رکھنا بھی ضروری ہے۔ دورونِ ذات کے قدیم آب زاردوں اور فرد کے انتہائی گہرے داخلی منطقوں سے پھوٹتا ہوا ناصری خواب، ازل وابد کی حدوں سے ماوراءالوہی نیند تک پھیلا ہوا ہے۔“
تشکیل (احمدہمیش)
حقیقتاً نصیر کی ”خواب سلسلے“ کی نظمیں ادب میں گرانقدر اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور خواب کے یہ Shadesجس تسلسل کے ساتھ فرد کی ذات سے نکل کر بساط کائنات پر پھیلتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے لئے موزوں ترین صنف صرف اور صرف نثری شاعری ہے۔ ان خواب زدہ نظموں میں تمام تر شعری کیفیات اس خوبصورتی سے سموئی گئی ہیں کہ ان نظموںسے گزرتے ہوئے خوابوں کے ناآفریدہ گوشے بھی خود بخود آپ کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نظم دیکھئے۔ ”خواب اور محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔“
’ہمارے درمیان بے خبری کی دھند پھیلی ہوئی ہے
تلاش کے راستے پر چلتے ہوئے
ہمارے قدم اپنی منزل نہیں دیکھ پاتے
تمہارا اندر، میری نظموں سے زیادہ خوبصورت اور اجلا ہے
مگر میری عینک کے شیشے روز بروز دبیر ہوتے جارہے ہیں

پتہ ہے ہمیں لکھتے ہوئے
نظمیں اور کہانیاں بے لفظ کیوں ہو جاتی ہیں
وہ ہماری جائے پیدائش، تاریخ اور عمر جاننا چاہتے ہیں
انھیں کیا معلوم
خواب نہ پیدا ہوتے ہیں نہ مرتے ہیں
ان کا اندراج کسی رجسٹر میں نہیں ہوتا
میں نہیں جانتا
تم نے کب خواب کی انگلی تھامے ہوئے
نیند میں چلنا سیکھا
لیکن میں وہ خواب ہوں
جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا
میں تو اس روز ہی مر گیا تھا
جس روز باپ نے ماں کے حاملہ پیٹ پر ٹھوکر لگائی تھی
مگر میں قبر کے اندر بڑا ہوتا گیا
اتنا بڑا کہ ماں مجھے سر جھکائے بغیر دیکھ سکتی

ایک بار کسی کی تصویر کھینچتے ہوئے
کیمرہ میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا تھا
تب مجھے پتہ چلا
کہ خواب روشنی میں سیہ کیوں ہو جاتے ہیں
انھیں ایکسپوز کرنے کے لئے اندھیرے کا محلول کیوں ضروری ہے
روشنی تاریکی میں ہی نظر آتی ہے
بہتے پانی کی کوئی شکل نہیں ہوتی
شکلیں ہماری آنکھ میں ہوتی ہیں
خواب دیکھنے کے لئے
نیندوں کی نہیں، آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے
Protozoan سے منش تک
کئی ہزار ملین سالوں کی ارتقائی نیند
محض آنکھیں کھولنے کا عرصہ ہے
موت اور زندگی میں محبت کا فاصلہ ہے
جسے ناپنے کے لئے ہم عمر کا پیمانہ استعمال کرتے ہیں
اورجینے کا ڈھونگ رچاتے ہیں
لیکن محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی

یہ تو ایک نامعلوم انت ہے
جو دوسرے نامعلوم انت تک موجود ہے
ہم جہاں اسے دریافت کرتے ہیں
وہیں پر اپنی اپنی حد مقرر کرلیتے ہیں
اور اسے ناموںاور رشتے میں تقسیم کردینے میں
اداسی ہمارے علم اور تجربے سے کہیں زیاد ہ ہے
اسے پھیلنے دو
رنگوں، پھولوں اور تتلیوں کو لفطوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا
پرندوں، پودوں اور اچھے لوگوں سے باتیں کرنے کے لئے
خاموشی سے بہتر کوئی اظہار نہیں
کوئی بات اپنی عمر سے بڑی نہیں ہوتی
کیا خبر ہم کسی عظیم خواب کی بیداری میں ہیں
اور کوئی ہمیں کائناتی آنکھ سے دیکھ رہا ہے
پرم آتما کو خواب دیکھتے ہوئے ڈسٹرب مت کرو
نصیر احمد ناصر

میں نے جان بوجھ کر یہاں ایک طویل نظم کا انتخاب کیا ہے، آپ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں خاص بات کیا ہے۔ آپ خواب اور نیند پر ہزاروں عمدہ اشعار سناسکتے ہیں۔ آپ میر اور غالب کے حوالے سے، خواب، نیند،زندگی اورموت کے فلسفے پر باتیں کرتے ہوئے بڑے آرام سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کیفیت دو مصرعے کے ایک شعر میں سموئی جاسکتی ہے، اس کے لئے اس قدر بھٹکی ہوئی نظم لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ شاعر کے ”ذہانت“ سے لبریز دو مصرعے کسی بھی کیفیت کی عکاسی کے لئے بہت ہےں۔ ممکن ہے آپ قلم لے کر نظم کی خامیا ںنکالنا شروع کردیں کہ یہ نظم یہاں بھی ختم ہوسکتی تھی یہاں بھی اور یہ بھی کہ نظم کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ Compact نہیں ہے۔
شعور کی رو (Stream of Consciousnes) کا خوشگوار ہوا کی طرح مستقل بہتے جانا ہی اس نظم کی اور نثری نظم کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ یہاں آزاد نظم کی طرح ہم”خیال“ کو یک موضوعی دھارے میں نہیں بہنے دیتے۔ ہم اسے مختلف Varitionsیا Shades سے گزارتے ہیں۔ ہم خوابوں کی بات کرتے ہیں تو جاگتی آنکھوں، بند آنکھوں اور نیند سے گزرتے ہیں۔ نیند سے گزرتے ہیں تو ہمیں فوٹو گرافی کا عمل یاد آجاتا ہے۔
”تب مجھے پتہ چلا کہ خواب روشنی میں سیہ کیوں ہو جاتے ہیں۔
انھیں ایکسپوز کرنے کے لئے اندھیرے کا محلول کیوں ضروری ہے۔“
خواب یاترا سے مسلسل گزرتے ہوئے ہم پر ایک خاص طرح کی اداسی مسلط ہونے لگتی ہے۔ انتراتما سے پرماتما تک کا یہ سفرہمیں نہ صرف ذہنی اور روحانی کربناکی سے گزارتا ہے بلکہ ایک طرح سے اندرہی اندر ہمیں نچوڑ بھی لیتا ہے۔ پھر جیسے یکایک ہم کسی وجدانی کیفیت سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ نقادوں کی شعری نارسائی ہی کہی جائے گی کہ اسے اب تک سَندوقبولیت کا درجہ نہیں ملا ہے۔
کچھ نمونے اور ملاحظہ کیجئے۔ پاکستان کے علی محمد فرشی سے لے کر، مستقل نثری نظم سے اختلاف رائے رکھنے والے نعمان شوق تک، نثری نظم لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ نثری نظم کے شاعر کا کینوس اور وژن کافی بڑا ہوتا ہے یہ سچ ہے کہ نثری نظم کے لئے اب تک کوئی پیمانہ متعین نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے، یہی اس کا سب سے بڑا وصف یا عیب ہو، مگر موضوع کے لحاظ سے جتنے ڈائمنشن شاعر اس Prose Poetry میں تلاش کرسکتا ہے، کسی دوسری شعری صنف میں نہیں_
کچھ نثری نظمیں ملاحظہ کیجئے۔

کل رات میرے خواب میں دومکان تھے
ایک بڑا گھر تھا
جس کا نام وقت تھا
ایک اور گھر تھا جو بڑے گھر سے چھوٹا تھا
نام اس کا بھی وقت تھا
ہم دونوں ان دونوں گھروں کی طرف جارہے تھے
ہنستے، کھیلتے
میرے ساتھ ایک دبلی سی شوخ وشنگ لڑکی تھی
جو عمر میں مجھ سے چھوٹی تھی
مگر جب وہ میری طرف دیکھتی تھی تو مجھے
میری عمر سے بڑی لگتی تھی
پھر بھی ہم دنوں نوخیز ہم عمروں کی طرح
ہنستے کھیلتے جارہے تھے
بڑے گھر کی طرف یا چھوٹے گھر کی طرف
منیر نیازی

آنکھیں Safet Valves ہیں
میں اپنی ذات کے پریشر ککر میں پکتی ہوں
اور جب اندر ہی اندر
بھاپ زیادہ ہو جاتی ہے تو
آنکھوں سے بہہ نکلتی ہوں۔
فوزیہ چودھری
بن مانس لڑکی
اس کے چہرے پر جنگل اُگ رہے تھے
اس کی ٹانگوں پر جنگل اُگا ہوا تھا
ا سکی اُبھرتی ہوئی چھاتیاں
رین فارسٹ بن رہی تھیں
ایک خوبصورت لڑکا اسے دیکھ کر
بے ہوش ہوگیا
وہ اسے اٹھاکر اپنے گھر لے آئی
لڑکے کے جسم پر کوئی بال نہیں تھا
انھوں نے آپس میں شادی کرلی
افتخار نسیم
اسے زندگی کا راز معلوم ہوگیا تھا
چمڑہ پوش دوپائے
بوڑھے باپ کو تیروں سے دھکیلتے ہوئے
دریا ئے عظیم کے مقدس پانیوں سے بہت دور لے گئے
دمکتے ہوئے صحرا میں زندگی دیر تک اس کی منتیں کرتی رہی
لیکن اس نے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی
اس کے ساتھ بڑے گناہوں میں
پہلا گناہ یہ تھا
کہ اس نے مقدس مٹی میں
سوم رس وئی کاشت کرنے سے انکار کیا
اس نے زمین کی ہری کوکھ سے
کپاس کا اجلا پھول اُگایا
مقدس ریشے سے اس نے ستر بنایا
اور جسم کے رام چھپالیے
اس نے تیر کے بجائے قلم
اور ڈھال کے بجائے تختی بنائی
وہ زبان کو بولنے
اور انگلیوں کو لکھنے کے لئے استعمال کرتا تھا
اس نے انسانوں کی پشت پر
تیر برسانے والوں کو خدا کا دشمن
اور چمڑہ پوش فاتحین کے تلوے چاٹنے الوں کو
کتوں کا آخری جنم قرار دیا
اس کا ایمان تھا کہ موت اسے نہیں مارسکتی
کیونکہ اس نے لکھنے کا راز ایک اپاہج بیٹے کو بتادیا تھا
اسی لئے آ میں
یہ نظم لکھتے ہوئے ادا نہیں ہوں
علی محمد فرشی
ان میں کئی نظمیں انتہائی فلیٹ ہیںاور کہیں کہیں ان کا کھردراپن یا سپاٹ بیانیہ ذہن ودماغ پر کچوکے بھی لگتاہے لیکنContentکی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔جس طرح بہت سے شاعر، اچھی شاعری نہیں کر پارہے ہیں، اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگ بھی نثری نظم کہنے کی کوششیں کررہے ہیں، جو نثری شاعری کے فن سے ابھی آگاہ بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی نصیر، فرشی وغیرہ کی نظمیں اپنے بین السطور اورمعنی آفرینی کی وجہ سے سیدھے دلوں میں اتر جاتی ہیں۔
نعمان شوق غزل کے شاعر ہیں۔ نئی نسل کے شاعروں میں نعمان کا قد اور رنگ دوسروں سے مختلف اور انفرادی ہے۔نعمان کی زندگی کے ساتھ ایک ناقابل فراموش سانحہ بھی جڑا ہوا ہے۔ نعمان نے جب ان یادوںکو لکھنا چاہا، تو اس کے لئے ان کے پاس موزوں ترین ہتھیار سوائے نثری شاعری کے کوئی اور نہیں تھا۔ یعنی نثری شاعری سے انحراف کا رویہ اپناتے ہوئے بھی، وہ اس کے قائل نظر آئے۔
نعمان شوق کی یہ نظم (نثری) ملاحظہ کیجئے۔
عنوان ہے۔
24جنوری1990
تم نے اندھیری رات چنی
اور رسی چنی اپنے لئے
اور میرے لئے بند کریئے
عذاب ِماہ وسال سے
بچ نکلنے کے تمام راستے

میں نے ماں کو ماں کہا/تم سے پہلے
رو کر اور چیخ کر
میں نے توڑی خاموشی کی برفیلی چٹان
اور اپنی ہستی کا اعلان کیا
تم سے پہلے
جلتی سیخوں میں
داغا گیا میرا احساس
تم سے پہلے
آتی جاتی سانسوں نے
آگ بھری میری ہڈیو ںمیں
گہری کالی رات نے
بسیرا کرلیا تھا مجھ میں
تم سے پہلے
میں نے بھی
چن رکھی تھی___ ایک رات
بھیانک، منحوس اور کالی رات
اپنے لئے
میں نے بھی
ایک رسی چن رکھی تھی
اس تنگ وتاریک گھاٹی میں اترنے کے لئے
جس میں تم اتر گئے
مجھ سے پہلے
تم میرے جیسے تھے نا!
ایک ہی مامتا کی مہربان شاخ پر
جھولے ڈالے تھے
میں نے اور تم نے
ایک سے تھے میرے اور تمہارے دکھ
میری اور تمہاری آنکھو سے بہنے والے آنسو
اور ان آنسوﺅں میں بھیگ کر
ایک سا لگتا تھا،میرا اور تمہارا چہرہ
تم میرے جیسے تھے نا!
شاید اسی لئے کسی نے آج پھر
پکار لیاہے مجھے، تمہارے نام سے
اور اچانک
خواب سے چونک پڑا ہوں میں
یا پھر کہیں ایسا تونہیں
اپنے ہونے کے بھرم میں
تمہارے نہ ہونے پر اصرار کرتا رہا ہوں میں
تو کیا سچ مچ یہ میں نہیں
یہ میرے ہاتھ پاﺅں، آنکھیں
سب تم ہی تم ہو
تو کیا وہ میں تھا
جس نے تھوک دیا تھا اس رات
دنیا کے کریہہ چہرے پر
تو کیا وہ میں تھا
جس نے رسی کے ایک ٹکڑے سے
ناپ لی تھی اپنی بچی کھچی عمر
تو کیا تم ہو
جو اتنی رات گئے، نظم لکھ رہے ہو، میرے لئے
___نعمان شوق
گو اُردو میں اس جدید ترین Story-Poem یا Prose-Poem کی ارتقائی پیش رفت کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے یہ نظمیں کافی ہیں۔ کلیشے سے پاک متنوع موضوعات پر لکھی گئی یہ نظمیں نہ صرف زندگی کے مختلف پہلوﺅں کا احاطہ کرتی ہیں، بلکہ ایک طرف جہاں خوبصورت امیجز ابھر کر سامنے آتے ہیں، وہیں بین السطور کی گہری معنویت بھی، غوروفکر کے لئے آپ کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
ہم فکشن میں شاعری نہیں کرسکتے ہیں۔ زیادہ جذبات نگاری کو بھی کچھ نقادوں نے اچھے فکشن کا عیب بتایا ہے۔ اس لئے Jane Austinسے امرتا پریتم تک، ان کی شاہکار تخلیقات پر بھی بے جا جذبات نگاری کا الزام لگتا رہا ہے۔ خود جوائس کا قول تھا، کہ آپ کسی کو بری طرح رلادیتے ہیں یا چونکا دیتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ کام تو ایک معمولی شرارتی بچہ بھی کرسکتا ہے۔ جس طرح فکشن میں آپ کو جذبات سے دامن بچانا ہوتا ہے، اسی طرح شاعری میں آپ کہانی Prose یا Storyکی فضا پیدا نہیں کرسکتے۔ یعنی شاعری کو سخت پتھریلی، ناہموار راہوں سے گزارنے کا خیال بھی، شاعری کی تمام ترجمالیات کو رد کرکے ہی آسکتا ہے۔ نتیجہ جو کام آپ شاعری سے نہیں لے سکتے، فکشن میں جس جذبات نگاری کو آپ فروغ نہیں دے سکتے، یہاں نثری شاعری، یا Story-Poemمیں یہ سارے دروازے آپ کے لئے کھلے رکھے گئے ہیں۔ یعنی آپ موضوع سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ نہ یہاں قافیہ ردیف کی پابندی ہے نہ ایک مخصوص Frame-work آپ کی کرافٹ مین شپ کو متاثر کرتا ہے۔ آپ آزاد ہیں اور بجا طور پر آپ اپنی آزادی کا استعمال کرسکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی ادبی کشش میں اضا فہ ہوتا جارہا ہے۔
نصیر احمد ناصر تسطیر کے اداریہ میں لکھتے ہیں۔
”ساٹھ کی دہائی میں کاشت کئے جانے والا یہ پودا (نثری نظم) ارتقائی تبدیلیوں اور نئی نئی پیوندکاریوں کے بعد اپنے دور ثانی میں عمدہ ثمرداری کا اہل ہوگیا ہے اور اب نئی نثری نظم کا ذائقہ پہلے کی طرح تلخ وترش نہیں رہا۔ لیکن ہمارے کئی ادیبوں اور نقادوں کی سوئی ابھی تک ساٹھ کی دہائی پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ آج بھی اسے چکھے اور محسوس کئے بغیر کڑواہٹ سے منہ بگاڑ لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔“
تسطیر،ستمبر77ئ
نثری نظم کے بارے میں عام غلط فہمیاں ابھی بھی قائم ہیں۔ جیسے آسانی سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کسی بھی کہانی کا کوئی اقتباس اٹھائیے، اسے نثری نظم کے فارم میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے سجالیجئے۔ لیجئے آپ کی نظم تیار ہے۔ دراصل ایسے نقادوں نے کبھی نثری نظم کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ میری طویل نظم لیپروسی کیمپ، کے دیباچے میں برادرم نعمان شوق نے مجموعی طور پر یہی اعتراضات دہرائے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میری کہانیو ںسے نثری نظم کے جو ٹکڑے نقل کئے ہیں، حقیقتاً وہ میری پرانی نثری نظمیں ہی ہیں میں نے شروعاتی دور میں بھی اپنی کئی کہانیو ںمیں ان نثری نظموں کے لئے جگہ نکالی ہے۔ دراصل کہانیو ںکے درمیان ان نثری نظموں کے ذریعہ میں ایک خاص طرح کی فضاپیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور بقول نصیراحمد ناصر، شاید انسان کی ازلی وابدی تنہائی کسی ایسے شعری نظام اور لسانی آہنگ کی متقاضی ہے، شاید ابھی تک جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکا۔ شاید نثری نظم اظہار کی اسی بے بسی کا غیرمرئی تخلیقی جواز ہے۔
مجھے لگتا ہے، یہی بات کبھی کبھی فکشن پر بھی صادق آتی ہے فکشن کی تخلیق کے دوران بھی کبھی کبھی یہی بے بسی راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے اور کہانیوں کے درمیان بھی کبھی کبھی نثری نظم کے سوتے پھوٹ سکتے ہیں۔ مگر حیرت تب ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے۔ کسی بھی کہانی کے اقتباس کی کئی حصوں میں تقسیم کر ڈالیے اور آپ کی نثری نظم تیار ہے۔
چلئے۔ یہ قدم بھی اٹھا کر دیکھتے ہیں۔
میری ایک کہانی ہے۔ غلام بخش۔ میرے افسانوی مجموعہ ”غلام بخش اور دیگر کہانیاں“ کی یہ پہلی کہانی ہے۔ غور کیجئے۔
”لیکن صاحبان۔ذرا ٹھہرئے۔ اس داستان کو شروع کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ بتادوں۔ ہوا یوں کہ جیسا میں نے شروع میں بتایا ہے کہ جب بھی میں نوین پبلشنگ ہاﺅس جاتا کوشش کرتا کہ نظریں بچا کر زیادہ سے زیادہ غلام بخش کا جائزہ لیتا رہوں۔“
اب اسی اقتباس کو نثری نظم فارم میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔
”لیکن صاحبان
ٹھہریے ذرا
اس داستان کو
شروع کرنے سے پہلے
میں بتادوںایک چھوٹا سا واقعہ

ہوا یوں
کہ جیسا میں نے بتایا ہے شروع میں
کہ جیسے ہی میں جاتا تھا،
نوین پبلشنگ ہاﺅس
کوشش کرتا
کہ بچا کر نظریں
زیادہ سے زیادہ
جائزہ لیتا رہوں
غلام بخش کا“
ممکن ہے، آپ یہ کہیں کہ میں نے جان بوجھ کر کہانی کا ایسا اقتباس اٹھایا ہے جسے نثری نظم فارم میں منتقل کرنا آسان نہیںہے اور میرا سارا زور محض اسی بات پر ہے کہ کہانی کے کسی بھی اقتباس یا ٹکڑے کو نثری نظم نہیں کہا جاسکتا۔ نثری نظم کا اپنے Content اور Content میں تحلیل ہوئی Feelings کے ساتھ نزول ہوتا ہے۔ آپ غور کریں تو اس کے نثری مواد میں بھی ایک خاص طرح کا شعری آہنگ چھپا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج ہیئت کا یہ تجربہ نہ صرف کامیاب ہوچکا ہے بلکہ ”بالعموم روایت کا ایک حصہ بھی بن چکا ہے۔“
وزیرآغا نے کیا ٹھیک کہا ہے_
اصلاًاصناف ادب انسانی سائیکی کے مختلف مقامات کو منکشف کرنے کے لئے ناگزیر ہیں اور اسی لئے یہ وجود میں آتی ہیں۔
”نثری نظم کا تخلیقی جواز“
اردو میں نثری نظم کے موجد احمد ہمیش کی یہ رائے بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
”خیال رہے کہ ٹیگور کی” گیتانجلی“ میں سنسکرت ناٹک کے مکالموں کے زیر اثر نثری شاعری کا آہنگ برتا گیا ہے۔ ٹیگور کی” گیتانجلی“ کے توسط سے ہی انگریزی شاعروں کے یہاں نثری شاعری آئی۔ اب بدقسمتی کو کیا کہا جائے کہ علامہ نیاز فتح پوری کی زیر ادارت ایک عرصہ تک ماہنامہ نگار میں ٹیگور کی شاعری کے جو تراجم نثر لطیف اور انشاءلطیف کی اصطلاح سے شائع ہوتے رہے، وہ راست بنگلہ سے نہیں بلکہ انگریزی سے اردو میں کئے گئے۔ جبکہ علامہ نیاز فتح پوری بنگلہ نہیں جانتے تھے۔ اسی لئے نثر لطیف اور انشاءلطیف ناقص اردو تراجم کے سب سنسکرت نژاد بنگلہ نثری شاعری کے آہنگ کو قبول نہ کرسکے۔ وہ لوگ اس پس منظر سے آگاہ نہیں جو اردو شاعری کے ڈانڈے نثر لطیف اور انشاءلطیف سے ملاتے ہیں۔“
یہی نہیں، نثری نظم پر بے جا اعتراض کرنے والو کے لئے احمد ہمیش نے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کچھ اس ڈھنگ سے کیا ہے۔
(1)”اسی طرح جو لوگ سجاد ظہیر کے شعری مجموعہ پگھلا نیلم (مطبوعہ 1964) میں شامل کچھ (Prosaic) منظوم کی گئی سطروں کو نثری شاعری سمجھتے ہیں،وہ نثری شاعری کے آہنگ اور اس میں پائی جانے والی اصل شاعری کی تفہیم نہیں رکھتے۔“
میری طویل نثری نظم ”لیپروسی کیمپ“ پر عام اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس کا لب ولہجہ ہندی ہے یا ہندی کے زیر اثر یہ وجود میں آئی ہے۔ یہاں مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ ہندی کے اثرات کو ہم یوں بھی زائل نہیں کرسکتے کہ اردومیں وہ صنف ہندی کے وسیلے سے پہنچی ہے۔ ہندی نثری شاعری کے مخصوص آہنگ کی شرکت یا شمولیت اس زبان میں قصداً نہیں بلکہ ضرورتاً بھی ہوئی ہے۔
(2)”میں نے ہندی نثری شاعری کے زیر اثر ہی پہلی بار اردو میں 1960ءکے دوران نثری نظمیں لکھیں۔“
احمد ہمیش
اس لئے ”This is not poetry“ کا ورد کرنے والوں کو اب سنجیدگی سے اس صنف کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس میں زیادہ امکانات ہیں۔ بات کہنے کی زیادہ گنجائش ہے۔ نثری نظم سے ”کھلواڑ“ کی کوششیں بھی بہت ہوچکیں، اب اس کے مقام کا تعین ہو جانا بہت ضروری ہے۔ ادب میں جب کبھی بھی کوئی تجربہ کامیاب ہوا ہے۔ اس میں اچھے اور سنجیدہ لوگوں کے ساتھ چند شوقین حضرات کا کو دپڑنا بھی جاری رہا ہے۔ اس لئے نثری نظم پر سنجیدہ باتیں کرتے ہوئے ایسے غیر اہم نکات کو نظر اندازکرکے آگے بڑھ جانا ضروری ہے۔
اسی لئے اپنی نئی کتاب، طویل نثری نظم ’لیپروسی کیمپ‘ کے پیش لفظ میں میں نے لکھا:
”میرے لئے اپنی ان Feelingsیا احساسات کو کہانیوں میں اتارنا دشوار تھا۔ سو میں نے نثری نظم کا انتخاب کیا۔ نثری نظم کے توسط سے مجھے اپنی بات کہنے میں زیادہ آسانی ہورہی تھی۔ میں اس نظم میں کچھ کرداروں کو بھی شامل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ خطرہ بھی بدستور بنا ہوا تھا کہ پھر یار لوگ کہیں گے۔ ”یہ نظم رہی کہاں۔ دوسروں کی طرح تم بھی کہیں نثری نظم لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے الوں کی سازش میں توشامل نہیں ہوگئے۔
مثلاً تمہیں انھیں کہانی کہنے میں کیا اعتراض ہے؟
جملے ذرا سیدھے کرلو تو یہ کہانی ہے۔ پھر تم اسے نثری نظم کہنے پر بضد کیو ںہو؟
دوستوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جو غزل نہیں کہہ سکتے، وہی لوگ ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
نثری نظم کے تعلق سے میں نے اپنے شاعر دوستوں کی آنکھوں میں جو جھلاّہٹ یا نفرت دیکھی ہے، اس کا اظہار ممکن نہیں ہے۔
(یہاں میں ان کے عقیدے کو رد کرنا نہیں چاہتا)
میں سوچتا ہوں، فکری سطح پر بہت سی باتیں ایسی ہیں، جن کا اظہار غزلوں میں نہیں ہوسکتا۔ کسی کسی کیفیت کو نظم یا آزاد نظم میں نہیں سمویا جاسکتا۔
کچھ کیفیتیں اتنی بے ہنگم اور الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ آپ ان کے لئے صنف ڈرامہ کو بھی موزوں نہیں ٹھہراسکتے۔ کچھ خیالات اتنے پرپیچ ہوتے ہیں کہ ان کو لے کر کہانیاں نہیں لکھی جاسکتیں۔ یا ناول کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا۔
زندگی مجموعہ¿ سوالات ہیں۔ ذہن میں آوارہ خیالوں کے Shades چلتے رہتے ہیں لیکن یہ سارے Shadesایسے نہیں ہوتے کہ ہم انھیں لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔ ذہن پر جب کوئی خیال نازل ہوتا ہے تو وہ اپنے پورے تام جھام، تکنیک، اسلوب کے ساتھ جنم لیتا ہے اور لاشعور میں ہی یہ طے ہوچکا ہوتا ہے کہ ___
الف:اسے نظم کے طور پر لکھنا ہے
ب:اس کے لئے کہانی موزوں ترین چیز ہے
ج: یہ خیال نظم میں در آئے تو بہتر ہے
لیکن حقیقتاً کچھ چیزیں سیال کی صورت میں Prose-Poemکی شکل میں ہی ڈھل کر سامنے آتی ہیں۔ پھر نثری نظم سے انکار کیوں؟“
”لیپروسی کیمپ“(پیس لفظ سے)
نئی الفی یا نئی صدی میں قدم رکھتے ہوئے آج یہ مقولہ ہر جگہ زیر بحث ہے کہ سائنس کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ہر قدم ایک نیا تجربہ، ہر قدم ایک نیا انکشاف، کوئی ایسی صورت اگر ادب میں بھی نظر آئے تو حیرت واستعجاب کے چشمہ کو اتار کر چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ سوچ کر بھی ایمان لے آئیں کہ انسانی سائیکی کے مختلف مقام کو منکشف کرنے کے لئے ممکن ہے اس صنفِ نوکی ضرورت پیش آگئی ہو اور اب نئی صدی میں، جبکہ نثری نظم، تکنیک اور ہیئت کے تجزیوں سے گزرتی ہوئی آہستہ آہستہ ہماری روایت کا ایک حصہ بھی بننے لگی ہے، اس کے ادبی مقام کا تعین کیا جانا ضروری ہے۔
اور اب، محض اس سے آنکھیں چرانے سے کام نہیں چلے گا
(2011مطبوعه "نظم نو" شماره اول اپریل )

Post a Comment