فنون

مدیر: نیّر حیات قاسمی

مدیر اعزازی: ڈاکٹر ناہید قاسمی

صفحات: 320

قیمت: 200 روپے

رابطہ: 251 بلاک، F-2 واپڈا ٹاؤن۔لاہور quarterlyfunoon@gmail.com

اردو ادب کے جاننے والوں میں شاید ہی کوئی ہو جو احمد ندیم قاسمی اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں کے بارے میں نہ جانتا ہو۔ فنون کا پہلا شمارہ اپریل تا جون 1963 تھا۔ اس شمارے کے اداریے میں انہوں نے بڑی حقیقت پسندانہ بات کہی تھی: ’فنون اس کے مرتبین کے ذوقِ فن کا اظہار ہے‘۔ اس میں صرف اتنا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ادبی جریدے سے ذوقِ فن کا یہ اظہار تگ و دو کے ساتھ ساتھ خوش نصیبی سے بھی مشروط ہوتا ہے کیونکہ اگر مرتبین کو تمام تر تگ و دو کے باوجود اپنے ذوق کے معیار پر پورے اترنے والی تخلیقات میسر نہیں آتیں تو محض ذوق کچھ نہیں کر سکتا۔

احمد ندیم قاسمی نے جب فنون شروع کیا تھا تو شاعری کے ساتھ ساتھ اردو فکشن اپنی بلندیوں پر تھا اور مزید اوپر جانے کے اشارے دے رہا تھا لیکن پھر یہ سلسلہ فکشن میں صرف ناول تک سمٹ کر رہ گیا کیونکہ گزشتہ پچاس سال کے دوران اردو میں لکھنا شروع کرانے والوں میں ایک بھی افسانہ یا کہانی نگار ایسا نہیں ہے جو اپنی تخلیقی شناخت اور اسلوب میں الگ بھی ہو اور پڑھنے والوں سے وسیع تر رشتہ بھی رکھتا ہو۔اس بارے میں اگر مگر تو کی جا سکتی لیکن شاید اس حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس لیے احمد ندیم قاسمی کو جو آسانی میسر تھی وہ اب نہیں ہے۔ شاید اسی نے اردو کے ادبی پرچوں کی زندگیوں، آزادیوں اور رسائی کو متاثر کیا ہے۔

کیا کیا جائے کے اوّل تو مشاعرے نہیں ہیں اور ہیں تو ان میں پانے والی شاعری صفحے پر آنے کے بعد ہانپنے اور ریں ریں کرنے لگتی ہے۔ یہی حال تنقید کا بھی ہے۔ تنقید کا منصب تخلیق سے دو قدم آگے چلنے کا ہے لیکن وہ نہ صرف پیچھے چل رہی ہے بلکہ گھسٹتی ہوئی چل رہی ہے۔

اس پس منظر میں فنون نے ذرا دم لے کر آگے چلنے کا قصد کیا ہے اور شمارہ 130 اکتوبر 2010 سے جون 2011 تک کی مدت کا ہے یعنی دو سہ ماہیوں کا ایک۔ اس میں پہلےانچاس صفحوں پر اداریہ، بین السطور، حمد و نعت، قندِ مقرر کے طور پر ابوالخیر مودودی کا ایک ترجمہ، احمد ندیم قاسمی اور مسعود مفتی کی تحریریں اور فیض احمد فیض صد سالہ یومِ ولادت سے فیض کی دو غزلیں اور تین نظمیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس حصے میں احمد ندیم قاسمی کا فیض احمد فیض کی شاعری پر ایک مضمون ہے جس کے بارے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ پہلے بھی شائع ہو چکا ہے یا نہیں۔ یہ حصہ یقیناً دلچسپی کا حامل ہے۔

--------------------------------------------------------------------
احمد ندیم قاسمی سہ ماہی فنون کی روحِ رواں ہیں، نیّر حیات اور ڈاکٹر ناہید نے ان کے ذوقِ اظہار کو برقرار رکھنے کو کوشش کی ہے۔
---------------------------------------------------------------------
اس کے بعد مقالات کا حصہ ہے جس میں ڈاکٹر سلیم احمد نے دوستوفسکی کے ناول ’نوٹس فرام انڈر گراؤنڈ‘ کا جائزہ ’تہہ خانے سے‘ کے عنوان سے لیاہے لیکن اس کے مقابلے میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون ’ورجینیا وولف سے سب ڈرتے کیوں ہیں؟‘ زیادہ دلچسپ، وسیع اور گہرا ہے۔ یہ مضمون قراۃالعین حیدر اور ان کے ناولوں کے بارے میں ہے۔ اس میں صرف وہ حصہ مضمون سے لگا نہیں کھاتا جس میں انہوں نے شفیق الرحمٰن، قدرت اللہ شہاب اور خواجہ احمد عباس کی قراۃالعین حیدر سے قربیتں اور فاصلے بیان کیے ہیں۔ تین مضمون ان مدرسین کی دلچسپی کے ہیں جو پڑھتے بھی ہوں۔ یہ مضمون ڈاکٹر یار محمد، پروفیسر عامر سہیل اور ہارون رشید کے ہیں۔ ظفر سپل کا مضمون ’منطقی اثباتیت‘ کے بارے میں ہے اور یقیناً طلبا کی دلچسپی کا حامل ہے۔

فن فنکار کے عنوان سے قائم کیے جانے والے حصے میں پہلا مضمون سید قمر حیدر قمر کا ہے اور نورین طلعت عروبہ کی نعتوں کے مجموعے ’حاضری ‘ کے بارے میں ہے اور خاصا جذباتی ہے، نہیں لگتا کہ اس سے شاعرہ اور نعت کہنے کے ہنر کا کوئی بھلا ہو سکتا ہے۔ اس حصے میں جمیل یوسف نے سلطان سکون کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور ان کا کہنا ہے ’سید عبدالحمید عدم کے بعد شاید ہی کسی نے غزل میں اس قدر سادہ اور روز مرہ کی زبان استعمال کی ہو، ہر شعر سہلِ ممتنع ہے‘۔ شاید جمیل یوسف کے پاس معاصر غزل کو غور سے دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ اسی حصے میں ڈاکٹر خورشید جہاں کی انشائیہ نگاری کے بارے میں پروفیسر افتخار اجمل شاہین کا اور ’بیان سے جانا۔ کرشن کمار طور‘ کے عنوان سے ڈاکٹر جمال نقوی کے مضمون ہیں۔ ڈاکٹر نقوی کا مضمون خاصی شکر گزاری پر مبنی ہے۔

نظموں کے حصے میں احمد ندیم قاسمی کے علاوہ آفتاب اقبال شمیم، احسان اکبر، خورشید رضوی، امجد اسلام امجد، ایوب خاور، امتیاز الحق امتیاز، نصیر احمد ناصر، سید عارف، اعجاز رضوی، احمد حسین مجاہد، طالب انصاری، رانا ذکا اللہ، اقتدار جاوید، شہزاد نیر، سیدہ آمنہ بہار، عنبریں صلاح الدین، عامر سہیل، عاصم خورشید، سلمٰی افتخار، بہزاد برہم، حسین رحمان، نیّر حیات قاسمی اور ناہید قاسمی کی تخلیقات ہیں۔ نصیر احمد ناصر اور نیّر قاسمی کی نظمیں زیادہ قابلِ توجہ ہیں۔ ناہید قاسمی کی نظم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ نظم میں ایڈیٹنگ کتنی اہم ہوتی ہے۔

غزلوں کا حصہ بھی احمد ندیم قاسمی صاحب سے شروع ہوتا ہے اور اس میں مشکور حسین یاد، جمیل یوسف، احسان اکبر، آصف ثاقب، امجد اسلام امجد، خورشید رضوی، سلطان شکوہ، شبنم شکیل، جلیل عالی، نجیب احمد، یوسف حسن، سید عارف، نصیر احمد ناصر، امتیاز الحق امتیاز، اشرف جاوید، ہارون رشید، حسن عباس رضا، عابد ودود، قمر الدین خورشید، احمد حسین مجاہد، رانا ذکا اللہ، اوصاف شیخ، ثاقب مجید، آغا نثار، شہاب صفدر، انیل چوہان، سعید خان، آمنہ بہار، حسین اختر، صائمہ اسماء، عنبرین صلاح الدین، محمد مختار علی، عامر سہیل، توقیر ارتضٰی، اطہر شاہ جعفری، سرفراز زاہد، مبشر سعید، نصرت زہرہ، زاہد نبی اور نیّرحیات قاسمی کی تخلیقات ہیں۔
-----------------------------------------------

امجد اسلام امجد نے مصحفی کے پنجم، ششم اور ہفتم دواوین سے انتخاب کیا ہے اور خاصے اچھے شعر نکالے ہیں۔
-----------------------------------------------------------
افسانوں کے حصے میں ضیا بٹ، نگہت مرزا، نصرت منیر، علی تنہا، فرحت پروین، نیلم بشر احمد، رئیس فاطمہ، نجیحہ عارف، سلمٰی افتخار صدیقی، عطرت بتول، محمد نعیم دیپالپوری اور نیّر حیات قاسمی کی تخلیقات ہیں۔ دو افسانے زیادہ توجہ کے قابل ہیں ایک تو ’لا مکاں میرا مکاں‘ ہے اور دوسرا ’بھول کی گھنٹیاں‘، بھول کی گھنٹیاں اس لیے اہم ہے کہ اس میں بہت کچھ کہنے کوشش میں افسانہ عمدہ ہوتے ہوتے رہ گیا ہے۔ نیّر کا افسانہ تجرید کی تجسیم اور اسے کہانی میں ڈھالنے کی کوشش ہے اگر اسے اتنا کھولا نہیں جاتا تو یہ ایک انتہائی عمدہ کہانی بن سکتی تھی۔ دیگر افسانے اگر ساٹھ ستر سال قبل شائع ہوتے تو بہت توجہ حاصل کرتے اور افسانہ نگاروں کو اس بات کی داد ضرور ملتی کہ ان میں امکانات ہیں۔

اس شمارے کی اور اہم، پڑھنے اور کئی بار پڑھنے لائق چیزوں میں حمید اختر کی کتاب ’کال کوٹھری‘ سے اقتباس، سلمٰی اعوان کا سفر نامہ ’پڑھنے چلی ہوں نوحہ بغداد کا‘ اور مصحفی کا انتخاب ہیں۔ یہ انتخاب امجد اسلام امجد نے کیا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ یہ شمارہ اول تا آخر پڑھنے لائق ہے، اس میں قارئین کی دلچسپی کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔


Post a Comment