نہ پُوچھ کِس لِیے ہم در پہ تیرے بیٹھے ہیں
نہیں تُو گھر پہ مگر گھر پہ تیرے بیٹھے ہیں
جو گھُوم گھُوم کے چکّر پہ تیرے بیٹھے ہیں
خیالِ مہرِ مُنوّر پہ تیرے بیٹھے ہیں
اندھیرا چھایا ہُوا ہے وجُود کا ہر سُو
دیارِ غیب کے منظر پہ تیرے بیٹھے ہیں
کہ دیکھ دیکھ مری آنکھ ہی نہیں بھرتی
طیُور کون صنوبر پہ تیرے بیٹھے ہیں
کِسی طرف سےکوئی ِرعدِ نُور چل جائے
بس اِک اِشارۂِ خنجر پہ تیرے بیٹھے ہیں
وفُورِ وقت وگرنہ نہ جان لے لیتا
کِسی ترانۂِ ازبر پہ تیرے بیٹھے ہیں
یہ ایک محورِ موجُودگی ہے چاروں طرف
یہ ہم کہ دُوسرے محور پہ تیرے بیٹھے ہیں
عزیز یُوں بھی بہت ہے ہمیں یہ چادرِ خاک
پڑھے ہُوئے کِسی منتر پہ تیرے بیٹھے ہیں
ہماری راہ میں تُو چھوڑ کر کہاں نِکلا
جو بے نِشان سے پتھّر پہ تیرے بیٹھے ہیں
تُو آنکھ پھیر کے ہم سے ہم آنکھ دُنیا سے
مچا کے دُھوم برابر پہ تیرے بیٹھے ہیں
کہاں نِکلتی کوئی سر چُھپانے کی صُورت
جہاں بھی بیٹھے ہیں ہم سر پہ تیرے بیٹھے ہیں
ضرُور ہم کو کوئی لِہر لینے آئے گی
نہ جانے کب سے سمندر پہ تیرے بیٹھے ہیں
نوید تُو نے کہا تھا کہ لوٹ آؤں گا
نجُوم و ماہ یہاں در پہ تیرے بیٹھے ہیں
افضال نوید

Post a Comment