مرادآباد کی بستی میں سیدمحمد یوسف کے گھرانے میں 15فروری1926 کوجس سانولے بیٹے نے جنم لیا اس کو شعر و ادب کی دنیا میں رئیس فروغ کے نام سے جانا،پہچانا اور مانا گیا۔اُن کا اصل نام سید محمد یونس حسن تھا۔مرادآباد میں جگرمرادآبادی کے ہم عصر اُستاد شاعر قمرمرادآبادی کے بے شمار شاگرد تھے جنہوں نے گلی کوچوں اور محلوں کے اطراف میں شعروادب کی شمعیں روشن کررکھی تھیں دوران تعلیم یونس میاں میں بھی ان محفلوں میں شریک ہوکر اساتذہ و نوجوانوں کے ادبی مشاغل سے دل چسپی پیداہوئی اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو مہمیز ملی اور خاندان میں کسی شاعر کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قابلیت لگن سے خودکو اہل سخن میں شامل کرلی۔
قیام ِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے سندھ کے قدیم شہر ٹھٹھہ میں پناہ لی تاہم وہاں دل نہیں لگا اور یہ عازم ِ
کراچی ہوگئے۔تھوڑی بہت جدوجہد کے بعد کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ان کو ملازمت مل گئی جہاں اسدمحمد خاں
بھی ملازم تھے۔دفتری فرائض کی ادائی کے ساتھ انہوں نے کے پی ٹی کی بزمِ ادب بھی سرگرمی سے چلائی اور ادارے کے مجلے ’صدف‘ کو سہ ماہی بنیاد پر ایڈٹ کرکے شائع کرواتے رہے۔
جب اسد محمد خاں کو ریڈیو پر انگریزی نیوزریڈر کی جزوقتی ملازمت ملی تو رئیس فروغ بھی ریڈیو اسٹیشن پر اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے چلے آئے اور تادم ِ آخر قمر جمیل،سلیم احمد،رضی اخترشوق کی طرح ریڈیو کے لیے خدمات سرانجام دیں۔غزل کے ساتھ ہی بچوں کی نظمیں بھی لکھیں جن کا مجموعہ ’ہم سورج چاند ستارے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ان کو مضمون نگاری اور تراجم پر بھی عبورحاصل رہا۔اپنا شعری مجموعہ
’رات بہت ہوا چلی‘ مرتب کررہے تھے تاہم دست ِ قصا نے مہلت نہ دی اور 15اگست 1982 کو علالت کے بعد وفات پاگئے۔ہم ان سے ریڈیو اسٹیشن پر بھی ملے اور جمال احسانی کے ساتھ ہسپتال بھی دیکھنے گئے تھے۔شمیم نوید نے ان کا مجموعہ شائع کروایا۔وزیری پانی نے بھی ایک کتاب ’رئیس فروغ برزخ کے وی آئی ہی روم میں‘ مرتب کرکے شائع کروائی تھی جو انورانصاری نے ہمیں مطالعے کے بعد دے دی تھی۔ طارق رئیس فروغ فیس بک پر موجود ہیں تاہم ان کو شعروشاعری سے اتنی دلچسپی نہیں :
فصل تمہاری اچھی ہوگی جائو ہمارے کہنے سے: اپنے گائوں کی ہر گوری کو نئی چنریا لادینا
دھوپ مسافر،چھائوں مسافر،آئے کوئی جائے کوئی : گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے یا رستا ہے
اپنے حالات سے میں صبح تو کرلوں لیکن : مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے : آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
عشق وہ کارَ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے : ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
رئیس فروغ کی نظموں میں انگریزی الفاظ بھی بروئے کار لائے گئے ہیں،قطعات و گیت اور غزلوں کا مجموعہ ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کا عنوان ان کی غزل سے لیا گیا ہے
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے : میں بھی ڈرا ڈرا رہا پھر مجھے نیند آگئی
سیدانورجاویدہاشمی

Post a Comment