اک ربطِ خاص یار سے ہو یوں کروں ہوں میں
اِنکار میں گہے، گہے ہا ں، ہو ں کروں ہوں میں
ا ظہارِ عشق اُ ن نے کیا طَو ر سے عجب
عُنو ا ن اب جسے سر ِ مضمُوں کروں ہوں میں
اُ س کو مری نگا ہ کا ا حسا ن مت سمجھ
گر ا لتفا ت چشم ِ پُر اَفسوُں کر و ں ہوں میں
ہر چند گفتگو کا سلیقہ نہ آ سکا
ہے فیض میرجوابھی موزوُ ں کروں ہوں میں
بخشا ہے اُ ن نے رزق بھی ’اردو ہے جس کا نام‘
اُ ر د و سے عشق جانئیے ہاں، کیوں کروں ہوں میں
ر ب کی عطا ہے جو بھی ہے وسعت بیان میں
پیش ِ سُخن خیال جو اَفزُوں کروں ہوں میں

Post a Comment