روز آندھی کو آزماتا ہوں
روز کوئی دیا جلاتا ہوں
ہر گھڑی ٹوٹنے کا خطرہ ہے
ہر گھڑی کچھ نہ کچھ بناتا ہوں
روز آتا ہوں کیوں یہاں آخر
روز آتا ہوں، روز جاتا ہوں
کچھ کسی سے میں پوچھتا کب ہوں
کچھ کسی کو کہاں بتاتا ہوں
کب کسی کو خیال رہتا ہے
کب میں آتا ہوں، کب میں جاتا ہوں
خود مجھے بھی خبر نہیں کیا کیا
خود ہی لکھتا ہوں خود مٹاتا ہوں
یاد رہتے ہیں کب سبق مجھ کو
یاد کرتا ہوں، بھول جاتا ہوں
پھول کھلتے نہیں ہیں باغوں میں
پھول کاغذ پہ اب کھلاتا ہوں
حال ابتر ہوا ہے دنیا کا
حال دل کا کہاں سناتا ہوں
نقش اوروں کے کیوں بگڑتے ہیں
نقش پانی پہ جب بناتا ہوں
اپنی گردن میں موچ آتی ہے
اپنی گردن کو جب جھکاتا ہوں
کیا عجب حال ہو گیا عالمؔ
کیا سنانا تھا، کیا سناتا ہوں
عالم خورشيد پٹنہ

Post a Comment