درد کی شام سخاوت پہ اتر آئی ہے
دھوپ سی قریہ ء وحشت پہ اتر آئی ہے
کوئی پیغام سا بھیجا ہے کسی نے شاید
اک اڑن طشتری سی چھت پہ اتر آئی ہے
روز طغیانی کی آواز بلاتی تھی اُسے
آنکھ دریا میں سکونت پہ اُتر آئی ہے
سرسراتے ہوئے پردے میں عجب گونج سی تھی
میری تنہائی بغاوت پہ اُتر آئی ہے
اتنی مدہم تو نہ تھی زرد مناظر کی صدا
ساری بینائی سماعت پہ اُتر آئی ہے
جسم جلتا ہے اندھیرے کے کفن میں لپٹا
رات دوزخ کی تمازت پہ اُتر آئی ہے
دِل میں دھیمی سی کوئی آنچ دبا رکھی تھی
بجھتے بجھتے بھی قیامت پہ اُتر آئی ہے
جیسے تسخیر کئے بیٹھی ہے دونوں عالم
آگہی اپنی عبادت پہ اتر آئی ہے
یاسمین حبیب
yasmeen habib k liey
جواب دیںحذف کریںید انور جاوید ہاشمی
غزل
آنکھ سے اپنے سمندر باندھیے
لہر سے تا چند کنکر باندھیے
زلف شانوں پر کھلے یا آنکھ پر
جس قدرممکن ہو بہتر باندھیے
دل کی دھڑکن پر بھی رکھ لیجیے نظر
جب تصور میں وہ منظر باندھیے
چشم یہ کس روز تر ہوتی نہیں
نم سے کم کیوں مصرعہ تر باندھیے
تنگ دامانی نہ کم اسباب کو
بخت کو ہے جو میسر باندھیے
سب نگہ بانی دھری رہ جائے گی
لاکھ اپنے لاؤ لشکر باندھیے
کراچی
ایک تبصرہ شائع کریں