پہلے دروازہ کھُلا ، پھر گھر کھُلا

کھُلتے کھُلتے سارا پس منظر کھُلا

وہ بھلا شرحِ محبت کیا کرے

جس پہ بابِ آرزو دم بھر کھُلا

زندگی نامہ ، سفر نامہ نہیں

رکھیےسب کے سامنے کیونکر کھُلا

کچھ سبق ناقابلِ تفہیم تھے

جن کا مطلب حرف سے باہر کھُلا

اور بھی رستے تھے شرحِ صدر کے

میرا سینہ اک دُعا پڑھ کر کھُلا

سرسری گزرا نہیں دُنیا سے میں

مجھ پہ ہر جا عالمِ دیگر کھُلا

دو ہی رُخ تھے عشق کی تصویر کے

ایک تجھ پر ، دوسرا مجھ پر کھُلا

شاہد ماکلی


Post a Comment