ڈاکٹر منوّر احمد کنڈے جن کا آبائی وطن پنجاب پاکستان ہے اوائل عمری میں ہیں تلاشِ معاش کی خاطر وطن عزیز سے ہجرت کرکے برطانیہ چلے گئے تھے اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔ آپ کا پیشہ طب ہے اور شعر وادب ذوق وشوق ہے یوں تو آپ کو انگریزی سائیکی اور پنجابی زبان پر بھی قدرت کاملہ حاصل ہے لیکن اردو زبان سے انہیں جو عقیدت ومحبت ہے اس کی بات ہی الگ ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر کنڈے وطن سے دور دیار انگلستان میں جہاں انگریزی کو اقتدار حاصل ہے اردو کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ آپ کی دو انگریزی میں کتابیں ایک پنجابی زبان کا شعری مجموعہ اور ایک اردو نظموں کا مجموعہ زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوچکا ہے اور ان کی سبھی کتابوں کو شرف پذیر ائی بھی حاصل ہوا ہے۔
ڈاکٹر منوّرؔ احمد کنڈے ایک خوش باش خوش اخلاق وضعدار منکسر المزاج شریف النفس درد مند اور ملنسار انسان واقع ہوئے ہیں۔ آپ فطری شاعر ہیں۔ شاعری ان کی تنہائی کا آمد اور سہارا بھی ہے، ادب کی خدمت بھی ہے اور معاشرے کی ضرورت تھی۔ وہ نہ صرف تسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ شاعری کررہے ہیں بلکہ وہ ان کی اشاعت اور لگاتار اشاعت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ان کی شعری تخلیقات نہ صرف یورپ اور امریکہ میں شائع ہوتی ہیں بلکہ ساری دنیا میں اور خاص طور پر اردو کے مرکز برصغیر میں بھی تو اتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اردو دنیا میں انہوں نے تھوڑے ہی وقت میں اپنی شناخت بنالی ہے اور دنیا بھر میں جاتے پہچانے جاتے ہیں۔
ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’بیدار دل‘‘ منظر عام پر آکر ارباب اہل نظر اور حلقہ شائقین سے خراج تحسین وصول کرچکا ہے۔ منوّر احمد کنڈے کی شاعری کا روایت سے دور کا رشتہ ہے اصولی طور پر وہ مابعد جدید اور نئی غزل کے شاعر ہیں۔ تخلیقیت اشارے اور کنایے ان کی شاعری کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں۔ کبھی کبھی وہ اپنی شاعری میں پیکر تراشی کے فن کا مظاہرہ بھی بھر پور انداز میں کرتے ہیں جیسے کہ ؂
دیار دل سا ہے نقشِ پا وادیٔ غزل میں
]کہاں کہاں دیکھو ایک شاعر بھٹک رہا ہے
تصویروں کی زبانی اور منظر نامے کے ذریعے خیال وفکر کا اظہار خالص تخلیقی عمل ہے جو شعر میں تنوع اورندرت پیدا کردیتاہے۔
منور احمد کنڈے کی شاعری عصرحاضر اور عصری حیات کی شاعری ہے جس سے سماج کی ناہمواریاں۔ سیاسی، سماجی، تہذیبی منافرت اور استعماریت وعسکریت کے رجحانات کے عکس جھلکتے رہتے ہیں۔ ذیل کے اشعار میں اس بات کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ؂ انسان کا مادہ پرستی کی دوڑ میں آگے نکل جا نااور روحانیت سے بچھڑ جانا وقت کا ایک عظیم سانحہ ہے۔ آج انسان سے انسان کی لا تعلقی اور سماجی نظام کے درہم برہم ہوجانے کابنیادی سبب بھی یہی مادہ پرستی زرگری اور خود غرض ہے ؂ پردیس میں دولت کے خزانوں پر بیٹھ کر بھی انسان وطن عزیز کی یادوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا یادوں کے سیہ زہریلے ناگ جب اسے ڈرستے ہیں تو اس کی روح تڑپ تڑپ اٹھتی ہے۔ ذیل کے اشعار کا وطن عزیز کی یادوں سے گہرا تعلق نظرآتا ہے ساتھ ہی ان سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ منوّرؔ کنڈے جذبات و احساسات اور تجربات کے شاعر ہیں اور کائنات کو وہ اپنی ذات کے حوالے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ؂ منوّرؔ احمد کنڈے نبّاض وقت ہونے کے سبب دور رس نگاہ رکھتے ہیں مغرب کی پھن پھیلائے کھڑی استعماریت اور عسکریت کے خونی عفریت بھی آہن خوفزدہ کردیتے ہیں۔ اسی طرف اشارہ ہے ؂
جس طرف دیکھئے زمینوں پر
کوئی پھیلائے جال رہتا ہے
جب سے پرانی قدروں کا انہدام ہوا ہے ’’ عقل‘‘ زوال کا استعارہ بن گئی ہے ؂
کیا بتاؤں میں کہ مجرم کون ہے
ہر کسی کے پاس اپنی عقل ہے
اور یہ عقل ہی ہماری تہذیب اخلاق اور تمدن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہورہی ہے۔

محمد اسحاق ساجدؔ

Post a Comment