وہ اک وجود زمیں پر بھی آسماں کی طرح
مری حدود سے باہر ہے لامکاں کی طرح
وہ اک خیال کوئی بحرِ بے کراں جیسے
مری نظر کسی بوسیدہ بادباں کی طرح
میں لفظ لفظ اسے ہی سمیٹنا چاہوں
مگر وہ پھیلتا جاتا ہے داستاں کی طرح
ازل سے سر پہ کھڑی دوپہر کا منظر ہے
سو اب یہ دھوپ بھی لگتی ہے سائباں کی طرح
مرے بدن میں کوئی شئے یگوں یگوں سے قمر
بکھر رہی ہے کسی ریگِ رائگاں کی طرح
قمر صدیقی

Post a Comment