جو چلا گیا سو چلا گیا، جو ہے پاس اُس کا خیال رکھ
جو لُٹا دیا اُسے بھول جا، جو بچا ہے اُس کو سنبھال رکھ
کبھی سر میں سودا سما کوئی ، کبھی ریگزار میں رقص کر
کبھی زخم باندھ کے پائوں میں کہیں سرخ سرخ دھمال رکھ
جو چرائی ہے شبِ تار سے کئی رتجگوں کو گزار کے
وہی کاجلوں کی لکیر ہے اسے اپنی آنکھ میں ڈال رکھ
کسی تارہ تارہ فراق سے کوئی گفتگو کوئی بات کر
یہ جواب گاہِ شعور ہے کوئی اپنے پاس سوال رکھ
تیرے درد سارے گراں بہا، تری وحشتیں ہیں عظیم تر
وہی بال کھول کے بین کر،وہی شامِ صحنِ ملال رکھ
یہ وہ آگہی کا مقام ہے ، جہاں لغزشوں سے مفر نہیں
یہاں ہست وبود کو بھول جا ، نئی قربتوں سے وصال رکھ
یہ جو روشنی کا ہے دائرہ ، یہ رہینِ شمس و قمر نہیں
ترے بس میں کب تھا کہ اب رہے تُو عروج رکھ یا زوال رکھ

یاسمین حبیب

3 تبصرے

  1. بہت خوبصورت غزل ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. کبھی سر میں سودا سما کوئی ، کبھی ریگزار میں رقص کر
    کبھی زخم باندھ کے پائوں میں کہیں سرخ سرخ دھمال رکھ
    کیا تازگی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. یاسمین حبیب بلاشبہ بہت کمال کی شاعرہ ہیں

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں