ٹی روم میں چائے پینے کے دوران ایک بحث چل پڑی تھی۔ کچھ ڈاکٹر علم غیب کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ اپنے دلائل پیش کر رہے تھے۔

ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ اُن کے تجربے میں ایسے کئی لوگ آئے ہیں جنہوں نے مستقبل میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت پہلے جو کچھ کبھی کہا۔ وہ سو فیصد ویسا ہی نکلا۔ "اور جن لوگو ں کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ کو ئی پیشہ ور نجومی یا ایسے کسی قبیل سے نہیں تھے۔ "

ٹی روم کے کونے سے کسی نوجوان ڈاکٹر نے نعرہ لگایا۔

"یعنی شوقیہ فنکار تھے۔ "

اس پر ٹی روم میں جیسے قہقہوں کے گرینیڈ پھٹ پڑے۔

جس پر فوراً ہی۔ ڈاکٹر شاہد نے اپنی بات کا دفاع کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا۔
"برخوردار۔ ابھی تو آپ نے عملی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ ذرا وقت گزرنے دیجئے۔ خود معلوم ہو جائے گا۔ فن کاری اور شوقیہ فن کار میں کیا فرق ہوتا ہے "

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے۔ ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر جمال کہنے لگے

" مثلاً میرے تجربے میں کئی مریض ایسے آئے ہیں۔ جن کے ہاں مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ "

" ڈاکٹر صاحب آپ کے مریضوں کے ہاں تو۔ " ڈاکٹر فاروق مزید کچھ کہنا ہی چاہتے تھے۔

کہ ڈاکٹر جمال نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے۔ ڈاکٹر فاروق کی بات کو کا ٹ کر کہا۔

"کہہ دیں کہ ہم اور ہمارے مریض ہوتے ہی پاگل ہیں "

اس پر ڈاکٹر احمد نے نے شعبہ میڈیسن کے ڈاکٹر فاروق کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا

"ڈاکٹر فاروق۔ آپ بحث ضرور کریں لیکن اپنے سینیرز کا خیال بھی رکھیں بحث میں عزت و تکریم کے دامن پہ آنچ نہیں آنی چاہیئے۔ "

کچھ ڈاکٹر جن میں سینیر اور جونئیر سب ہی شامل تھے ڈاکٹر جمال کی اس بات سے اتفاق کرتے تھے۔ کہ وہ واقعی صحیح کہہ رہی ہیں۔ جبکہ کچھ نوجوان ڈاکٹروں کا ٹولہ جیسی ادھار کھائی بیٹھا تھا کہ اُنہوں نے کسی کی بات کو نہیں ماننا

ڈاکٹر جمال نے ٹی روم سے نکلتے ہوئے قدرے مدھم لہجے میں اپنی بات کے دفاع میں ایک بار پھر کہا۔

"سائنس جس مضمون کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم طبعی اور فطری دنیا میں رونما ہونے والے تمام مظاہر کا تجربے اور مشاہدے سے مطالعہ کریں۔ اور اس کے نتیجے میں برآمد ہونے والے حقائق کو اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر تسلیم کریں۔ یہی سائنس ہے۔ لیکن جسے آج ہم سائنس کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں ایسی باتیں کرنے والوں کو کلیسا نے جادوگر قرار دے کر مار ڈالا تھا۔ یعنی جو آج سائنس ہے اُسے ماضی میں محض جادو اور علم غیب سمجھا جاتا تھا۔ کوپر نیکس مرتے دم تک اپنے نظریات کا برملا اظہار نہ کر سکا۔ گلیلیو کو اپنے نظریات کے اظہار پر عمر قید میں رہنا پڑا اور ان سے قبل نجانے کتنے ہی سائنس دانوں کو اپنے نظریات کے حق میں زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے ہونگے۔ میری دانست میں آج کے نوواردان بساط۔ میری مراد آپ ینگ ڈاکٹروں سے ہے۔ آپ کا رویہ بھی عہد ماضی کے کلیسا کے پادریوں سے کسی طور کم نہیں۔ "۔ ڈاکٹر جمال یہ کہتے ہوئے ٹی روم سے باہر چلے گئے۔

میڈیکل سپر نٹنڈنٹ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نوجوان ڈاکٹروں کو صبر اور تحمل کی تلقین کرتے ہوئے کہا

"دیکھیں ہم ٹی روم میں محض چائے پینے نہیں آتے۔ یہ تو ہم سب اپنے اپنے دفتروں میں بھی پی سکتے ہیں۔ یہاں آنے کا بڑا مقصد ایک دوسرے سے ملنا ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنا اور خوش وقت ہونا ہوتا ہے جسے انگریزی زبان میں سوشلائز کرنا کہتے ہیں۔ گر آپ کسی کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے تو کیا یہ ضروری ہے کہ اُسی یہ جتا یا بھی جائے۔ جبکہ آپ کسی کی رائے سے اتفاق نہ کرنے کا اظہار محض خاموش رہ کر بھی کر سکتے ہیں اور یاد رکھیئے کہ جب آ پ شد و مد سے کسی کی بات کی نفی کرتے ہیں تو آپ کا رویہ اُس وقت رجعت پسندانہ ہو جاتا ہے ترقی تو آگے بڑھنے کا نام ہے۔ کسی ایک بات پر رُکے رہنے کو ترقی کا نام ہرگز نہیں دیا جا سکتا"

میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وارثی کے بات ختم کرنے پر ٹی روم میں سناٹے کا عالم طاری تھا۔ بس ائیر کنڈیشنر کی آواز گونج رہی تھی۔ ڈاکٹر فاروق جو کچھ دیر پہلے بحث کے دوران ہائی بلڈ پریشر کے مریض نظر آتے تھے۔ شرمندگی کے باعث پیلے پڑے ہوئے تھے۔ ٹی روم آج سے پہلے سگرٹوں کے دھوئیں کے باوجود شاید اتنا کثیف اور بوجھل محسوس نہ ہوا تھا جتنا آج اس بحث میں شامل ہونے والی کدورت کے باعث لگ رہا تھا۔

میں بھی خاموشی سے اُٹھ کر او پی ڈی چلا گیا اور کچھ دیر بعد وہاں سے اُٹھ کر ڈاکٹر جمال کے دفتر میں جا پہنچا۔ ڈاکٹر جمال بے حد مرنجا مرنج قسم کے انسان تھے میرے پرانے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیکل کالج کے زمانے ساتھی بیپ تھے مجھے دیکھ کر مسکرائے وہ اس وقت کسی فائل کو پڑھ رہے تھے۔

"آئیں ڈاکٹر شاکر دیکھا آپ نے آج کے میدان کار زار کو"

"ڈاکٹر جمال۔ نفسیات تو آپ کا میدان ہے اور آپ جانتے ہی ہیں۔ نوجوانی کی عمر کے اپنے کمپلیکس ہوتے ہیں ویسے آپ کے ٹی روم سے جانے کے بعد۔ ایم ایس ڈاکٹر وارثی نے اس سارے سلسلے پر خاصے افسوس کا اظہار کیا تھا لگتا ہے جیسے ڈاکٹر فارق کو اس بات کا احساس ہے اور وہ اپنے کئے پر خاصے شرمندہ ہیں۔ "

"نہیں بھئی اس میں نہ شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت ہے۔ اور نہ اس شد و مد سے بحث کرنے کا کوئی تک تھا۔ اس سے پہلے تو ڈاکٹر فاروق نے کبھی ایسے

رویئے کا اظہار نہیں کیا تھا اب کسے معلوم ہے۔ کہ اُن کے ساتھ اس سے پہلے کیا واقعہ ہو چکا ہے۔؟۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اُن سے مل کر بات کو ختم کیا جائے۔ "ڈاکٹر جمال نے میری بات کے جواب میں کہا

"ڈاکٹر جمال میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں مںک ایک دوسرے کے لئے برداشت کا مادہ کم ہوتا جا رہا ہے اور لوگ باگ اب اپنے خیالات میں پہلے سے کہیں زیادہ متشدد رویوں کا اظہار کرنے پر کسی قسم کا افسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔ "

"ڈاکٹر شاکر اسے آپ ہمارے ہاں گزشتہ برسوں کے نتیجے میں ہونے والی آمرانہ سیاست کی دین سمجھیں۔ میں خود ڈاکٹر فاروق کے بارے میں حیران ہو ں کہ اُنہوں نے کیوں اس قدر جذباتیت کا اظہار کیا۔ "

ابھی ہم یہیں تک بات کر پائے تھے۔ کہ ڈاکٹر جمال کے دفتر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر فاروق کمرے میں داخل ہوئے۔

میں نے اور ڈاکٹر جمال نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ادھر ڈاکٹر فاروق نے ڈاکٹر جمال کی طرف پہنچتے ہوئے اپنا ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھا کر کہا۔

"ڈاکٹر جمال۔ میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی۔ "

ڈاکٹر جمال ڈاکٹر فاروق سے ہاتھ ملاتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور اُ ن سے بغل گیر ہو کر کہنے لگے۔

"مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ آپ آ گئے۔ ہم دونوں ابھی یہی بات کر رہے تھے کہ کس طرح اس معاملے کو ٹھیک کیا جائے۔ "

"ڈاکٹر جمال۔ دراصل میری بات تو ابھی پوری بھی نہ ہونے پائی تھی۔ کہ آپ نے اُس کا مطلب کچھ اور نکال لیا۔ جبکہ در حیقتت میں تو خود گزشتہ ایک ماہ سے اسی علم غیب کے مسلےک کا شکار ہوں۔ "۔ ڈاکٹر فاروق نے جواب میں کہا۔

ڈاکٹر جمال نے ایک بار پھر میری جانب دیکھتے ہوئے ڈاکٹر فاروق سے سوال کیا

"میں کچھ سمجھا نہیں۔ حالانکہ آپ نے اُس وقت تو یہی کہا تھا کہ آپ کے مریضوں کے ہاں تو۔ "

"جی بالکل میں بس یہی کہہ پایا تھا۔ حالانکہ میرا مطلب یہی تھا کہ آپ کے ہاں تو اس وضع کے تجربات آئے دن رونما ہوتے ہونگے۔ میرا مطلب آپ کے ہاں آنے والے مریضوں سے تھا ڈاکٹر جمال آپ واقعی اس قسم کے واقعات کے بارے میں کچھ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کس حد تک درست ہیں۔ ؟

اور کیا علم غیب۔ در حقیقت آج کی سائنسی دنیا میں کوئی جواز رکھتا ہے۔ ؟ یا اسے ہم پرانے مخفی علوم کی دنیا سے متعلق سمجھیں۔ ؟ "

" دیکھیں۔ ڈاکٹر فاروق ہم سب ڈاکٹر ہوتے ہوئے سائنس کی دنیا سے متعلق ہیں۔ اور جوکچھ بھی ہم روز مرہ دیکھتے ہیں۔ میرا مطلب اپنے مریضوں کی دنیا سی ہی۔ چاہی وہ نفسیاتی مریض ہوں یا ذہنی امراض میں گرفتار۔ اور یا پھر سیدھی سادھی میڈیسن یا سرجری کی دنیا سی متعلق روزمرہ کی عام بے ماریوں کی شکار۔ کیا اُن مریضوں میں سے ہسپتال آنے والے کسی بھی مریض کی باری میں آپ پوری قطت ش کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کون سا مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو جائے گا۔ ؟اور کس مریض کا قطعی پروگنوسس کیا ہو گا۔ ؟کیا آپ کے تجربات میں ایسا نہیں ہوا کہ آپ جس مریض کے بارے میں مطمئن تھے کہ یہ صحت یاب ہو جائے گا۔ وہ اچانک ایک دن کے قیام ہسپتال کے بعد گھر جانے کے بجائے راہی ملک عدم ہوا جب کہ ایک اور مریض جس کے لواحقین تک سے کنسلٹنٹ یہ کہہ چکے تھے کہ اب آپ انہیں گھر لے جائیں۔ کہ آخری اے ام میں ایسے مریض کو اپنے عزیزوں میں رہنے سے سکون ملتا ہے وہی مریض اگلے ہی دن سے بہتر ہونا شروع ہو گیا اور چند روز بعد وارڈ میں مٹھائی تقسیم کرتا ہوا ہنسی خوشی ا پنے گھر چلا گیا۔ اب یہ کہ اُس مریض نے کتنی عمر پائی۔ یہ ایک الگ بات ہے لیکن ایسا ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ ہم باوجود سائنسی شواہد کے بہت سی باتوں کے بارے میں اب بھی خاموش ہیں۔ آپ خود کئی مریضوں کے چارٹ پر۔ " پی۔ یو۔ او "۔ یعنی "پائی ریکسیا آف ان نون اورجین "۔ تحریر کرتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مریض کے بخار میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ معلوم نہیں۔ اور یہ سب ہم مریض کے تمام ضروری معائنوں کے بعد لکھتے ہیں۔

مجھے بتائیں کیا ایسا نہیں ہے ؟۔ ڈاکٹر جمال نے اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے گہرا سانس لیا اور اپنی کرسی میں ریلیکس کرنے لگے میں دونوں کو دیکھ رہا تھا

" ڈاکٹر جمال۔ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔ لیکن وہ جو علم غیب ہے اُس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ؟"

ڈاکٹر فاروق نے جیسے تھک ہار کے اپنا سوال پھر دہرا دیا۔

"ڈاکٹر فاروق جہاں تک غیب کے بارے میں علم رکھنے کی بات ہے۔ تو غیب کا علم تو بے شک خدا کی ذات کو ہوتا ہے۔ لیکن ہاں جیسے آپ ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کسی بھی مریض کا علاج کرتے ہوئے اُس کی بہتری کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ جبکہ شفا من جانب اﷲ ہی ہوتی ہے۔ بس ایسے ہی کچھ لوگوں کو قدرت یہ صلاحیت بھی دیتی ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں پیش بینی کر سکیں۔ جسے ہم پریمونیشن [Premonition] بھی کہتے ہیں خیال رہے کہ اس پریمو نیشن کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہو تی۔ "

جیسے میں اپنی بات کے حوالے سے آج ٹی روم میں کہنا چاہ رہا تھا کہ بہت سے نفسیاتی مریضوں کے ہاں خواب میں مستقبل کے بارے میں اشارے ملتے ہیں۔ جو بہت سی حالتوں میں کم و بیش درست ثابت ہوتے ہیں۔ شیکسپئیر کے مشہور ڈرامے۔ جو لیئس سیزر میں یہی پریمونیشن جو لیئس سیزر کی بیوی کو خواب کی صورت میں نظر آتی ہے اور وہ پریشان ہو کر اپنے شوہر یعنی روم کے مطلق العنا ن حکمران جو لیئس سیزر سے کہتی ہے کہ وہ آج سینیٹ میں نہ جائے۔ اُس نے ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ لیکن جو لیئس سیزر اپنی بیوی کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق سینیٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ اوراُسی دن جو لیئس سیزر کو سینیٹ میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ "

"تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ڈاکٹر شاہد کی بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ "ڈاکٹر فاروق نے کہا

"میں تصدیق نہیں کر رہا۔ بلکہ آپ کو اپنے تجربات کی بنا پہ یہ بتا رہا ہوں کہ درحقیقت کچھ لوگوں کے ہاں یہ خداداد صلاحیت ہوتی ہی۔ کہ وہ آپ کی مستقبل کی باری میں یا آنے والے کل کو کیا ہونے والا ہے کچھ باتیں بتا سکیں۔ ایک واقعہ میر ے سامنے کا ہے جسے آج بھی دہراتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔ دس برس پہلے کی بات ہے۔ میں کراچی میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گیا ہوا تھا۔ ایک دن اُن کے لان میں ہم سب بیٹھے ہوئے شام کی چائے پی رہے تھے۔ وہیں ایک صاحب بے ٹھی تھے جن کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ وہ دست شناسی کے ماہر ہیں۔ جن سے اُس وقت کچھ علم فلکیات اور دست شناسی کے بارے میں اسی قسم کی گفتگو ہو رہی تھی۔ وہ سگرٹ پیتے ہوئے اپنے تجربات ہمیں سنا رہے تھے۔ اور ہم سب ہمہ تن گوش اُن کی باتوں کو شوق سے سُن رہے تھے۔ کہ اتنے میں ایک گیند باہر سے لان میں آ کر گری۔ کچھ دیر بعد ایک سات آٹھ برس کا بچہ بھاگتا ہوا اندر آیا اور کہنے لگا۔ "

"انکل میری بال اندر آ گئی ہے۔ "

"ہاں بیٹے یہ لو۔ یہی ہے نا تمہاری بال۔ ماہر دست شناس نے گیند کو بچے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا"

اور جیسےہی بچے نے اپنی بال لینے کو اپنا ہاتھا بڑھایا۔ اُنہوں نے اُس بچے کو اس کی گیند تھما دی بچہ گند لے کر تھینک یو انکل کہتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گے ا لیکن ماہر دست شناس کی حالت دیدنی تھی۔ اُن کے چہرے کا رنگ ایسا فق تھا۔ جیسے اچانک اُنہوں نے کوئی بھیانک خواب دیکھ لیا ہو۔

میرے عزیز فورا اپنے دوست کی طرف لپکے۔ میں نے آگے بڑھ کر اُن کی نبض دیکھی اور اُنہیں پانی کا گلاس دیتے ہوئے پینے کا مشورہ دیا

"بیگ صاحب۔ خیریت ہے آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟"

اُن کے مُنہ سے بس یہ نکلا۔ "یہ بچہ کس کا ہے۔ ؟"

"بیگ صاحب۔ میں نے اسے پہلے یہاں نہیں دیکھا۔ ممکن ہے سامنے کسی گھر میں آئے ہوئے مہمانوں میں سے ہو۔ کیوں کیا بات ہے۔ ؟"

"روؤف صاحب۔ اس بچے کے ہاتھ میں لائف لائن نہیں تھی۔ "

"جی کیا مطلب آپ کا۔ میں سمجھا نہیں ؟"

" جب میں نے بچے کو اُس کی گیند تھمائی اور اُس نے گیند لینے کے لئے اپنا ہاتھ کھولا۔ تو میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اُس کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر نہیں تھی۔ "

ہم سب ہی یہ سن کر ایک عجیب سی کیفیت کا شکار تھے۔ جیسے ہمارے سامنے موجود راستہ کہیں دھند میں کھو گیا تھا۔ اور خود بیگ صاحب اس بات کے بعد پریشانی کے عالم میں اُٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ اندھیرا ہو رہا تھا۔ ہم سب لان سے اٹھ کر اندر لاؤنج میں چلے گئے۔ مغرب کا وقت تھا کہ باہر سڑک پر کسی تیز رفتار گاڑی کی بریکیں لگنے کی چیختی ہوئی آواز آئی۔ خدا خیر میں اور میرے عزیز روؤف دونوں ہی بھاگتے ہوئے باہر سڑک پر پہنچے وہاں ایک ہجوم جمع تھا۔ کوئی بچہ گاڑی تلے آگیا تھا وہی کار بچے اور اُس کے لواحقین کو لے کر ہسپتال کی طرف چلی گئی جس کے پیچھے کچھ اور لوگ بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں اُس کار کے پیچھے روانہ ہو گئے رات کے گیارہ بجے یہ خبر ملی کہ ہسپتال پہنچنے کے باوجود بچے کی جان نہ بچائی جا سکی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ وہی بد نصیب بچہ تھا۔ جس کے بارے میں ا ُس شام چند گھنٹے پہلے بیگ صاحب ہم سب کو یہ بتا کر حیران پریشان کر گئے تھے۔ کہ اس بچے کے ہاتھ میں لائف لائن نہیں تھی"

اس بچے کی موت ایک المناک سانحہ تھا اور ہم سب اس لئے بھی اس کی موت سے اداس تھے کہ بیگ صاحب کی وساطت سے ہم محض چند گھنٹے قبل یہ جان چکے تھے کہ اُس بچے کے ہاتھ میں لائف لائن نہیں ہے۔ ہمارے علاقے میں ہر گھر اُس بچے کی ناگہانی موت پہ سوگوار تھا۔ اگلے ہی دن مجھے وہاں سے واپس آ نا تھا۔ بہت دنوں تک اس واقعے کے پس منظر کے بارے میں سوچتا رہا۔ بیگ صاحب سے پھر دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی۔ آج بھی جب کبھی یہ حادثہ یاد آتا ہے تو دماغ سوچ سوچ کر شل ہو جاتا ہے۔ لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اب آپ بتائیں اسے ہم کیا کہیں گے ؟۔ محض ایک اتفاق۔ یا در حققتں علم غیب سے کوئی تعلق؟"

ڈاکٹر فاروق جو اب تک بڑے غور سے ڈاکٹر جمال کو سنے جار ہے تھے۔ یکدم بول پڑے

"بس کچھ اس سے ملتی جُلتی کیفیت سے آج کل میں گزر رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں میری مسز ناہید یہاں گرلز کالج میں ہسٹری کی لیکچرر ہیں۔ ہم دونوں نے مل جل کر ایک چھوٹی سی کار خریدی ہے جس سے میرا ناہید اور دونوں بچوں کے آنے جانے کا مسہاڑ حل ہو گے ا ہے۔ ہم دونوں اس وجہ سے خاصے مطمئن تھے۔ پہلے میں بچوں کو اُن کے اسکول اتار دیتا۔ پھر ناہید کو اُس کے کالج ڈراپ کر کے یہاں ہسپتال آ جاتا تھا۔ زندگی پہلے کے مقابلے میں قدرے آسان ہو گئی تھی۔ ورنہ بچوں کے لئے صبح کو پک اپ والے کا انتظار۔ کبھی وقت پر آیا کبھی دیر ہو گئی اور بچوں کو سکول میں دیر سے پہنچنی پر مصیبت الگ۔ اور پھر سکول انتظامیہ کی جانب سے ہماری یعنی والدین سے وضاحتیں الگ پھر سکول سے واپسی پر جب تک بچے گھر واپس نہیں آ جاتے یہ تمام عرصہ ایک پریشانی اور بے قراری میں گزرتا تھا"

"تو اب کیا ہو گیا۔ ؟"میں نے بیچ ہی میں ڈاکٹر فاروق کی بات کو کاٹتے ہوئے اُن سے پوچھ لیا

اور ڈاکٹر فاروق مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے۔

" ڈاکٹر شاکر۔ بس ہم اس سہولت کو بمشکل کوئی دو ماہ ہی بھر پائے ہونگے کہ جیسے قدرت کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ ایک روز جب میں نے ناہید کو اُس کے کالج سے لیا تو وہ روز کی طرح خوش خوش آنے کے بجائے کچھ پریشان حال کار میں بیٹھی۔ میں نے اُس کے میگرین کی تکلیف کو پیش نظر رکھتے ہوئے خر یت معلوم کی۔ تو وہ بجھے ہوئے لہجے میں کہنے لگی میگرین نہیں ہے۔ بہت پوچھا لیکن اُس نے کچھ نہ بتایا۔ بچوں کو لے کر گھر پہنچے۔ میں خاصا پریشان تھا کیونکہ یہ ناہید کا انداز نہ تھا۔ کھانے کے بعد کئی بار کے پوچھنے پر وہ مجھ سے کہنے لگی۔ کہ مجھے کار بیچ دینی چاہیئے۔ میرے بہت پوچھنے پر اُس نے بتایا۔

ہمارے ہاں ایک پروفیسر ہیں جو پڑھاتی انگریزی ادب ہیں لیکن اُن شہرت ایک دست شناس کی ہے۔ نجانے کیوں کل میں بھی اُن کے پاس ا پنا ہاتھ دکھانے پہنچ گئی تھی۔ میرے ہاتھ کو دیکھ کر وہ اک دم چپ سی ہو گئیں۔ پھر کہنے لگیں۔ آپ نے کار خریدی ہے۔ ؟ یہ آپ کی فیملی کو سوٹ نہیں کرے گی۔ بلکہ آپ کے شوہر کی جان کو اس سے خطر ے کا امکان ہو سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے آپ یہ کار فورا بیچ دیں۔ "

اپنی بیوی کی اس بات کو سُن کر میں ہنسا اور کہنے لگا کہ ظاہر ہے اُنہوں نے تمہیں اپنی نئی کار میں سے اترتے بیٹھتے کئی مرتبہ دیکھا ہو گا۔ لہذا یہ تو اُن کے علم میں ہے۔ رہ گئی بات کہ یہ ہمیں یا ہماری فیملی کو سوٹ نہیں کرتی۔ تو تم خود ہی دیکھ لو کہ اس کے آنے سے ہماری مشترکہ مشکلات کس قدر کم ہو گئی ہیں۔ باقی تم میری طرف سے فکر نہ کرو۔ نہ میں تیز رفتار ڈرائیور ہوں نہ اتنا نوجوان کہ کار دیکھ بھال کے نہ چلاؤں۔ اور ویسے بھی میں دست شناسی اور ستاروں کے علم کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اگر تمہیں یاد ہو تو شاید کسی ایسے ہی موقع کے لئے علامہ فرما گئے ہیں

ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا

وہ خود فراخی افلاک میں ہے خار و زبوں۔

لیکن میرے بے حد سمجھانے کے باوجود ناہید نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا۔ کئی روز سے کالج نہیں گئی۔ کھانے پینے میں بھی دلچسپی نہیں لے رہی۔ آجکل اُس کی رات کی نیند ڈسٹرب ہے۔ بچے الگ پرے شان ہیں اور میری حالت تو آج آپ نے دیکھ ہی لی ہے۔ میں در اصل اسی حوالے سے آپ سے بات کر رہا تھا۔ جب کہ آپ یہ سمجھے کہ میں شاید آپ سے اختلاف کر رہا ہوں۔ حالانکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں میری مدد کریں

ڈاکٹر فاروق کی کہانی سُننے کے بعد ہم تینوں ایسے چپ ہو گئے تھے۔ جیسے ہم سب کو یہ خوف ہو کہ کہیں باہر کھڑے ہوئے لوگ ہماری بات چیت نہ سن لیں۔ جبکہ صحیح معنوں میں ڈاکٹر جمال موجودہ صورت حال کے بعد خاصے سیدو ہ ہو گئے تھے۔ کہ میں بیچ میں بول پڑا

"کیا یہ منا سب نہ ہو گا کہ بھابی کو آپ یہاں ڈاکٹر جمال کے پاس لے آئیں۔ اور یہ باقاعدہ طور پر اُن کا نفسیاتی علاج کریں۔ "

" میں خود بھی یہی چاہتا ہوں۔ "ڈاکٹر فاروق نے میری تائید کرتے ہوئے کہا

لیکن ڈاکٹر جمال کچھ توقف کے بعد بولے

"میرے خیال میں بہتر یہ رہے گا کہ میں اور ڈاکٹر شاکر آج یا کل کسی وقت آپ سے طے کر کے۔ آپ کے ہاں ایسے ہی ملنے آ جاتے ہیں۔ وہاں چائے پیتے ہوئے آپ بھابی کے سامنے یہ ذکر مجھے سنانے کو چھیڑ دیجئے گا۔ باقی میں نمٹ لوں گا"

ڈاکٹر فاروق اس مشورے پر خاصے مطمئن نظر آئے۔ صبح کے واقعے کے بعد سے پہلی بار میں نے اُن کے چہرے کو کسی حد تک پرسکون دیکھا۔

اگلے روز ہم ڈاکٹر فاروق سے طے شدہ وقت کے مطابق اُن کے ہاں سوا پانچ بجے پہنچ گئے۔ اُن کے ڈرائنگ روم میں ہمیں بیٹھے بمشکل پندرہ بیس منٹ ہوئے ہونگے کہ مسز فاروق چائے کے لوازمات ٹرالی میں سجائے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ وہ ہما رے لئے چائے بنا رہی تھے ں۔ ادھر میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ دیکھیں اب ڈاکٹر جمال کس طرح اس صورت حال سے نمٹتے ہیں۔ کہ ڈاکٹر جمال نے چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے ماہر نفسیات کے انداز میں مسز فاروق کو پہلے تو نئی کار کی مبارک باد دی اور ساتھ ہی اُن کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولے

" مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کئی راتوں سے مکمل نیند نہیں لے سکی ہیں "

ادھر مسز فاروق بس جیسے اسی موقع کی منتظر تھیں۔ یکدم روتے ہوئے کہنے لگیں۔

" بھائی صاحب۔ آپ ہی انہیں سمجھائیں۔ میں تو کہہ کہہ کر تھک گئی ہوں۔ کہ یہ اپنی کار بیچ دیں۔"

" لیکن ہم تو آج آپ کو در اصل نئی کار کی مبارکباد دینے آئے تھے۔ اور آپ اسے بیچنے کا کہہ رہی ہیں۔ خیریت توہے۔ ؟ "

"انہوں نے تو آپ کو نہیں بتا یا ہو گا۔ میں بتاتی ہوں۔ در اصل ہمارے کالج میں ایک پروفیسر سعیدہ ہیں جن کی شہرت دست شناس کی ہے۔ دور و نزدیک کے شہروں سے بھی لوگ اُنہیں اپنا ہاتھ دکھانے آتے ہیں۔ وہ کسی سے اس کا معاوضہ نہیں لیتے ں۔ بس اُس دن نجانے میں کیوں اپنا ہاتھ د کھانے اُن کے پاس چلی گئی۔

"تو اُنہوں نے آپ کے ہاتھ کو دیکھ کر کیا کہہ دیا۔ ؟"

ڈاکٹر جما ل نے انتہائی پر سکون انداز میں چائے پیتے ہوئے مسز فاروق سے پوچھا جیسے وہ اس معاملے کے بارے میں بالکل بے خبر ہوں۔

پروفیسر سعیدہ نے میرے ہاتھ کو دیکھ کر کہا تھا۔ کہ آپ کو نئی کار سوٹ نہیں کرے گی۔ بلکہ اس سے آپ کے شوہر کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

یہ کہتے ہوئے وہ ایسے بلک بلک کر رونے لگیں جیسے کوئی چھوٹی سی بچی ہوں ڈاکٹر جمال نے اُنہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔

"گھبرائیے نہیں۔ مجھے بس یہ بتائیں کہ آپ کا ہاتھ دیکھنے والی زرا قد کی لمبی سانولے رنگ کی گولڈن فریم کی عینک لگائے ہوئے انگریزی کی پروفیسر تو نہیں۔ اگر میں غلط نہیں اور یہ وہی ہیں تو وہ تو میرے علاج میں رہ چکی ہیں۔ سنا ہے اچھی استاد ہیں۔ لیکن جب وہ میرے زیر علا ج تھیں تو اُن کی شخصیت کا یہ جوہر مجھ پر نہیں کھلا تھا۔ بہر حال آپ مطمئن رہیں۔ جیسا آپ چاہیں گی ویسا ہی ہو جائے گا۔ لیکن کیا آپ مجھے اپنا ہاتھ دکھا نا پسند کریں گی؟کسی حد تک دست شناسی سے میں بھی وا قف ہوں "

ڈاکٹر جمال کی باتوں نے جیسے مسز فاروق پر جادو کر دیا تھا۔ وہ اپنا ہاتھ پھیلا کر ڈاکٹر جمال کے پاس بیٹھ گئیں۔ ادھر میں اور ڈاکٹر فاروق بھی ڈاکٹر جمال کو غور سے دیکھے

جا رہے تھے اور میں مسلسل یہی سو چ رہا تھا کہ دیکھیں اب پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے ؟ تب ڈاکٹر جمال نے مسز فاروق کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے بڑے اعتماد سے بولنا شروع کیا۔

"مسز فاروق۔ آپ اپنے طالب علموں میں خاصی مقبول ہیں۔ اور ایک اچھے استاد کی شہرت رکھتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کون سا مضمون پڑھاتی ہیں لیکن پرانے وقتوں کی داستانوں اور واقعات پر آپ کو خاصا عبور حاصل ہے بلکہ شاید تاریخ کے مضمون سے آپ کو خاصی دلچسپی ہے یہ کہنا عجیب ہو گا لیکن آپ کا ہاتھ بتا رہا ہے کہ آپ اپنے شوہر کے لئے بہت پزیسیو ہیں۔ جبکہ میرے خیال میں ہمارے ہاں ہر محبت کرنے والی بیوی ایسی ہی ہوتی ہے۔ یعنی اس معاملے میں آپ اپنی کار کو بھی اپنے اور اپنے شوہر کے مابین ایک حد فاصل سمجھنے لگی ہیں۔ مجھے آپ کے ہاتھ میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آ رہی کہ میں آ پ کو کار فروخت کرنے کا مشورہ دوں۔ بلکہ میں یہ مشورہ ضرور دو ں گا کہ آج کے بعد ڈاکٹر فاروق کے بجائے کار آپ کے تصرف میں رہے گی۔ یعنی آپ فاروق کو ہسپتال چھوڑیں گی اور پھر واپسی میں انہیں اور اپنے بچوں کو پک اپ کرنے کی ذمے داری بھی آپ کی ہو گی۔ یعنی آپ کی کار بھی آپ کے پاس رہے گی۔ اور جس خطرے کی باعث آپ آجکل پریشان ہیں وہ بھی نہیں رہے گا کہیئے اب آپ کا کیا خیال ہے ؟"

لگتا تھا جیسے ڈاکٹر جمال نے منزل مار لی تھی۔ مسز فاروق بھی اپنے چہرے سے خاصی پر سکون نظر آ رہی تھیں۔ فاروق بھی مطمئن دکھائی دیتے تھے۔ اور مسز فاروق نے جیسے ڈاکٹر جمال کی باتوں سے اتفاق کر لیا تھا۔ اس کے بعد ہم کچھ دیر اور ڈاکٹر فاروق کے ہاں بیٹھے اور چائے پینے کے بعد دونوں میاں بیوی کو ایک حد تک آسودہ چھوڑ کر چلے آئے۔

کئی ماہ گزر گئے۔ اس دوران جب بھی ڈاکٹر فاروق سے ملاقات ہوئی۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ مطمئن نظر آئے۔ ایک دن راستے میں مجھے ملے تو میں نے مسکراتے ہوئے اُن سے خیریت دریافت کی اور اُن کی کار کے بارے میں بھی پوچھ بے ٹھا۔ جس پر وہ کہنے لگے۔

" ڈاکٹر شاکر۔ ڈاکٹر جمال نے تو میر ا معاملہ ہی آسان کر دیا ہے۔ نہ اب مجھے پہلے کی طرح کار ڈرائیو کرنے کی ٹینشن رہی۔ نہ کوئی اور غم۔ اور پھر ناہید بی۔ اب کار کی فکر سے بے نیاز ہو گئی ہیں۔ اب و ہ خود کار چلاتی ہیں بچوں کو اور مجھے ڈراپ کرتی ہیں۔ اسی طرح واپسی میں مجھے ہسپتال سے لیتے ہوئے بچوں کو اُن کے اسکول سے پک اپ کر کے گھر لے جاتی ہیں۔ اور بس خوش ہیں۔

"چلیں اس سے بہتر اور کیا بات ہو گی۔ ہم خرمہ و ہم ثواب۔ "میں نے کہا۔

ٹی روم گئے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا تھا ادھر کئی دنو ں سے ڈاکٹر جمال سے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ کہ وہ ذہنی امراض کے کسی سیمینار میں شرکت کرنے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اُس دن جب ٹی روم پہنچا تو وہاں ہمیشہ کی طرح ایک بحث زوروں پر تھی۔ لیکن آج بحث کا موضوع سیاسی نوعیت کا تھا۔ ڈاکٹر شاہد میرے سامنے بیٹھے ہوئے خاموشی سے چائے پی رہے تھے ڈاکٹر فاروق ٹی روم میں دکھائی نہ دیئے۔

ٹی روم ایک طرح سے دیکھا جائے تو وقت گزاری کا وسیلہ ہی نہیں بحث کرنے والوں کے لئے ایک قسم کا اکھاڑہ سمجھیں۔ جہاں پہلوانوں کی طرح جسم کا زور دکھانے کے بر عکس زبان کا زور دکھانے والوں کا اجتماع رہتا ہے۔ وہ حضرات جنہیں بحث کئے بغیر روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ اُنہیں ٹی روم میں چائے بیشک نہ ملے۔ لیکن وہ ٹی روم جانا نہیں چھوڑ سکتے۔

گھر پہنچنے پر علم ہوا کہ بیگم کہیں گئی ہوئی ہیں۔ بچے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ تنہائی میں کھا نا کھا کر اپنی عادت کے مطابق میں کچھ دیر کے لئے لیٹ گاں۔ لیکن طبیعت پہ ایک بوجھ کے باعث آنکھ نہ لگی۔ اُدھر بیگم بھی واپس نہیں آئی تھیں۔ میں اسی انتظار میں تھا کہ وہ آئیں تو واک کے لئے نکلوں۔ کہ فون کی گھنٹی بجنی شروع ہو گئی ریسیور اٹھا یا۔ تو دوسری طرف سے ہسپتال کی ایکسچینج کا آپریٹر بول رہا تھا۔

" ڈاکٹر صاحب۔ میں جاوید بول رہا ہوں۔ آج کوئی تین بجے ڈاکٹر فاروق کی کار کا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا جس میں کار میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دو بچے اور کوئی بزرگ خاتون زخمی ہوئے تھے جو ہسپتال میں داخل ہیں۔ ڈاکٹر فاروق اور اُن کی بیگم موقع پر ہی ہلا ک ہو گئے "

میں ایک سکتے کے عالم میں تھا۔ ادھر آپریٹیر مجھ سے بار بار پوچھے جا رہا تھا۔

"ہیلو۔ ہیلو۔ ڈاکٹر صاحب آپ سن رہے ہیں ایم ایس صاحب نے سب ڈاکٹروں کو اطلاع دینے کے لئے کہا تھا۔ "

ریسیور میرے ہاتھ میں تھا۔ چند روز پہلے ڈاکٹر فاروق سے ہونے والی ملاقات مجھے یاد آ رہی تھی۔ ذہن میں ڈاکٹر شاہد کا پیشین گوئی کا تصور اور۔ ڈاکٹر جمال کی پریمونیشن تھیوری آ پس میں خلط ملط تھیں۔ اس کنفیوزن میں بس ایک خیال طلوع ہو رہا تھا۔ کیا دست شناس پروفیسر سعیدہ کی پیش بینی کا اس بات سے کوئی ربط تھا۔ ؟


انور زاہدی


Post a Comment