پاکستان سنٹر راس الخیمہ میں دو کتابوں مکہ مدینہ اورمیرا قائد کی تقریبِ رونمائی
مکہ پرُشکوہ شہرِجلال اور مدینہ سراسر جمال ہی جمال
عرفان صدیقی کی کتاب کو پڑھتے ہوئے کئی بار آنسوؤں کی شبنم نے دل و دماغ کو بھگو دیا
صبیحہ صبا۔اردومنزل
مکہ مدینہ بظاہر دو سادہ سے نام ہیں مگروسعت کے اعتبار سے ایک دنیا اپنے اندر سمیٹے ہوئے بلکہ پوری دنیا کا مرکز و محور ۔اللہ اور اس کے رسول کے یہ گھر اتنی جاذبیت رکھتے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اللہ جن دلوں کو گداز عطا کر دے اور ان کے قلم میں تاثیر عطا کر دے تو کیا کہنے۔گزشتہ دنوںپاکستان سنٹر راس الخیمہ میںدو کتابوں کی رونمائی ہوئی۔ایک کتاب کا نام مکہ مدینہ ہے کتاب کے مصنف نامور صحافی اور ادیب عرفان صدیقی جن کی ساری زندگی لفظوں سے کھلتے گزری ا۔پنی کتاب مکہ مدینہ میںاپنے روحانی تجربات اور مشاہدات کو انتہائی خوبصورتی اور دل سوزی سے بیان کیا ہے جس کو پڑھتے ہوئے کئی بار آنسوؤں کی شبنم نے دل و دماغ کو بھگو دیا۔وہ لکھتے ہیں،،مکہ مکرمہ کے پر شکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجد نبوی کے احاطہ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہو جاتے ہیںاس کیفیت کی سرشاری اور سر مستی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو برسوں کوچہ جاناںتک پہنچے کی آرزو میں سلگتا رہا ہو۔جس کی زندگی کا ہر لمحہ حضوری اور حاضری کی تمنائے بے تاب سے مہکتا رہا ہوجس نے انتظار کی لمبی راتیں اورآتشیں دن گذارے ہوںجو صرف اس لئے جیتا رہا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کوگنبد خضریٰ کے عکسِ جمیل سے منور کر لے،،۔ایک اور جگہ عرفان صدیقی لکھتے ہیںمیں کس طرح روضہِ رسول تک پہنچا۔مجھے اتنایاد ہے کہ میرا سر جھکا ہو ا تھا۔میرے وجود پر ہلکی ہلکی سی کپکپی طاری تھیاور میرا چہرہ آنسوؤںسے تر تھا مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ میرے آس پاس بیسیوں آدمی کھڑے تھے لیکن چند لمحوں بعد مجھے یوں لگاتھا جیسے میں بالکل اکیلا ہوں
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر تومی بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
اے خدا تو دونوں جہانوں سے غنی ہے اور میں ایک درماندہ فقیر ہوں۔تیرا کرم ہوگا کہ قیامت کے دن میری معافی قبول کرلے اور مجھے بخش دے۔اگر کسی وجہ سے میرا حساب کتاب کرنا اور میرے اعمال نامے کا جائزہ لینا ضروری خیال کرے تو اتنا کرم کرنا میری فردِ گناہ آقائے دوجہان کی نگاہوں سے چھپا کے رکھنا،،اسی طرح عرفان صدیقی نے ایک واقعہ درج کیا ہے پچیس سال قبل میں اپنے والدین کے ہمراہ مکہ سے مدینہ آرہا تھا تو بس میں مصری نوجوانوں سے بھری تھی ۔شوخ و شنگ نوجوان جن کے بدن میں پارہ بھرا تھا۔ایک دوسرے سے چہلیںکرتے،گپیں لگاتے ، لطیفے سناتے، شوخیاں کر تے نوجوان کسی یونیورسٹی کے طالب علم لگتے تھے۔اگلے دن مجھے نوجوانوں کا قافلہ روضہ رسول کے پہلومیں کھڑا نظر آیا ۔دھاڑیں مارتے ،آہیں بھرتے اور عشق بلا خیز کی سر مستیوں سے مغلوب نوجوان جنہیں گردوپیش کا کچھ پتا ہی نہ تھا۔انہیں شاید اپنے وجود کا احساس بھی نہیں تھا۔یہ یکایک انہیں کیا ہوگیاتھا؟اور ان سب کو کیا ہوجاتا ہے جو چاہے عمر کے کسی حصےّ میں ہوں دربارِ رسالت میں حاضر ہوتے ہی طفیل شیر خوار بن جاتے ہیں بلکتے ہوئے ، روتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے ۔اللہ سے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے ۔یہ نہ رہے تو اظہار کا کوئی وسیلہ ہی نہیں رہتا،،۔میں نے عرفان صدیقی کی کتاب سے چند اقتباسات پیش کئے یہ کتاب ایسے ہی روح پرورتاثرات پر مشتمل ہے یہ تاثرات دلوں کو چھو لیتے ہیںاور ہم مصنف کے ساتھ ساتھ چل پڑتے ہیں اور مکہ مدینہ کی پرُکیف فضاؤں میںخود کو محسوس کرتے ہیں۔اللہ عرفان صدیقی کو جزائے خیر دے کہ انھوں نے اپنی کیفیات کو اتنی عمدگی سے تحریر کیایہ کتاب ان کالموں پر مشتمل ہے جو صدیقی صاحب نے اخبار میں تحریرکئے۔ایں سعادت بزورِ بازو نیست ۔تا نہ بخشد خدائے بخشندہ ۔کتاب کی رونمائی پاکستان سنٹر راس الخیمہ میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے میزبان شیخ محمد عارف تھے جو عرفان صدیقی کے شاگردبھی رہے ہیں شیخ عارف اپنے استاد عرفان صدیقی کا بے حداحترام کرتے ہیں ۔انھوں نے بینر پر بھی عرفان صدیقی کا پورانام پروفیسر عرفان اللہ صدیقی لکھوایا۔عرفان صدیقی اور نورالحسن تنویر تقریب کے مہمانان خصوصی تھے جبکہ صدر چوہدری محمدالطاف تھے نظامت ارشد انجم نے کی جوالشرق کے چیف رپورٹر ہیں۔تقرب میں دوسری کتاب نورالحسن تنویر کی کتاب میرا قائد کی رونمائی تھی۔اس کتاب میں مصنف نے بڑی سادگی سے اپنے قائد نواز شریف کی حکمرانی کے دوران کارناموںکو بیان کیا ہے ان کی ذاتی خوبیوں پر روشنی ڈالی ہے اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان کے حالات کو جس طرح بیان کیا اس سے ان کی پاکستان سے محبت ظاہر ہوتی ہے میںاپنی صغیر احمد جعفری اور اردومنزل کی جانب سے دونوں حضرات کوان کی کاوشوں پر مبارک باد دیتی ہوں اور پاکستان سنٹر کی انتظامیہ کو بھی جنہوں نے پاکستان سنٹر کے دروازے کھلے دل سے پاکستانیوں پر کھول دئیے

Post a Comment