مٹی سے شَغف، پانی پہ گذر
پیتے ہیں لہو، ہم خاک بہ سر
وحشت کے سوادل میں نہیں کچھ
گردش میں ہوں میں ، آواز نہ کر
دیکھی ہے جھلک پردے سے جو کل
دنیامرے دل کی زیر و زبر
ہم کو ہو متاع زیست عطا
اک قلبِ حزیں، اک دردِ جگر
جب درد کا دریا سوکھ چکا
تو اس سے ہوئ تشکیلِ حجر
صحراے درونِ ذات نکل
ملتا ہے وہاں اک سیلِ بدر
اک رازِ خدی، اک روحِ خدا
ہوتا ہے اسی مابین بشر
میں تجھ سے زیادہ تجھ سے قریں
محسوس تو کر، محسوس تو کر
تم نوچ رہے ہو عصمتِ حق
کچھ کرلو حذر، کچھ کرلو حذر
محبوب مرا بس تو ہی تو ہے
آ، پاس مرے، مجھ سے تو نہ ڈر
تکریم کروں ، تعظیم کروں
انسان کا دل اللہ کا گھر
رفیع اللہ میاں

3 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں