چلے تو پیروں میں پر لگے تھے
وہ راستے کی ہر اک رکاوٹ کو روندتے آگے بڑھ رہے تھے
زمین پیچھے کو بھاگتی تھی
اور ان کے قدموں کی گرد گردٰوں پہ چھا گئی تھی
ہواوٰں کے شور و شَر سے آگے
انہیں گماں تھا کہ وہ زمانے کو مات دیں گے
مگر زمانہ کہ پیر ۔ دانا ہے ، جانتا تھا
کہ ان کے قدموں سے اٹھ کے پیہم
عجیب سی ایک کچکچاہٹ
ضعیف لیکن مہیب کھٹ کھٹ
مسلسل آہٹ
دلوں کو دہشت کے ناخنوں سے کریدتی تھی
پہ چلنے والوں کو اتنی فرصت نہ تھی کہ پل بھر پلٹ کے دیکھیں
گزر گہ ۔ وقت پر کئی ماندہ رہروٰں کے
شکستہ و خستہ استخواں تھے
وہ سردمہری تھی
پھول رشتے فسردہ ہو کر بکھر گئے تھے
ہر اک تعلق بجھا ہوا تھا
ہر ایسا جذبہ جو راہ روکے، جو پاوٰں پکڑے
وہ دل بدر کر دیا گیا تھا
سماعتیں گر نصیب ہوتیں تو جان لیتے
یہ استخواں ان ہَوا سواروں سے کہہ رہے تھے
کہ خاک زادوں کی عرش و افلاک تک رسائی
دلوں کے سوزوگداز سے ہے
حیات کے سوزو ساز سے ہے
نمایش ۔ طاقت و توانائی سے نہیں ہے
محاذ آرائی سے نہیں ہے
لطافت ۔ ابر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دامن ۔ دود میں نہیں ہے
مئے براھیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جام ۔ نمرود میں نہیں ہے
تم اپنے اپنے دلوں میں جھانکو
دکھوں کا درماں، بہشت ۔ امکاں یہیں کہیں ہے

Post a Comment