ہجر ایسا کوئی آزار نہیں ہونے کا

نہیں ہونے کا مرے یار نہیں ہونے کا

رونے لگتاہے پس۔ چشم کوئی دوسرا بھی

سو میں تجھ غم میں عزادار نہیں ہونے کا

روشنی ساز کوئی آئے تو آئے ورنہ

شب کا منظر شفق آثار نہیں ہونے کا

کار۔وحشت بھی عجب کار۔ گراں ہےجس میں

جاں کا جانا کبھی معیا رنہیں ہونے کا

اے مری موت کے قاصد مری جانب مت آ

میں ابھی خواب سے بیدار نہیں ہونے کا

دیکھیئے پیار سے ان خستہ بدن پیڑوں کو

یہ وہ منظر ہے جو ہر بار نہیں ہونے کا

اشک ریزی کیے جاتی ہیں نگوڑی آنکھیں

اور بدن ہے کہ ثمر بار نہیں ہونے کا

ہم سیہ بخت جہاں بھی کہیں جاویں آویں

دشت ہووے گا پہ گلزار نہیں ہونے کا

حماد نیازی


Post a Comment