اے سال کی پہلی صبح بتا
کیا اُن کا مقدر بدلے گا
جو بجھتے دئیے کی صورت میں
جیون کی منڈیر پہ رکھے ہیں
اِک درد کی گٹھڑی سر پہ لئے

اِک دکھ کی چادر اوڑھے ہوئے
کسی غم کو رخصت کرتے ہیں
کوئی رنج نیا مل جاتا ہے
جو حرفِ دعا کو تھامے ہوئے
اپنے حصے کی ایک کرن
اُمید کے شہر میں ڈھو نڈتے ہیں
جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
چلتے ہیں اور نہ ٹھہرتے ہیں
اے سال کی پہلی صبح بتا
کیا میری اور میری جیسی
لاکھوں آنکھوں کے خواب کبھی
تعبیر کا سورج دیکھیں گے
وحشت کا رستہ روکیں گے
کیا کچھ لمحے ترے دامن میں
روشن ہیں ستاروں کی صورت
کیا کچھ پل ہیں تری مٹھی میں
خوش رنگ نظاروں کی صورت
کیا عشق نگر کے صحرا میں
روتی ہی رہے گی پیاس ابھی
کیا گھائل دل کے زخموں کو
مرہم کی رہے گی آس ابھی
اے سال کی پہلی صبح بتا...
حمیرا راحت

Post a Comment