سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں، مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
عدیم ہاشمی کی زیرِ نظر کتاب ’’چہرا تمہارا یاد رہتا ہے‘‘ اتنی آسان بھی نہیں کہ اس پر بے دھڑک اپنی رائے داغ دی جائے۔ خصوصاً ایسے حالات میں کہ جب ادب بالعموم اور شاعری بالخصوص ’تجربات‘ کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں تجربہ کرنا اور وہ بھی نیا تجربہ یقینا ایک مشکل کام ہے۔ یہ کام اس وقت اور مشکل ہو جاتا ہے جب ایک با معنی اور با مقصد تجربہ کرنا مقصود ہو۔ سید محمد جعفری نے ایک جگہ ناکام تجربے کے ماحصل کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
ع ٹوٹی دریا کی کلائی، زلف الجھی بام میں
ع آدمی اخروٹ میں ہے، اونٹ ہے بادام میں
عدیم ہاشمی نے بھی ’’ماجھے گامے‘‘ کو اسی ذیل میں رکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے ’تجربات‘ کے حق میں آواز بھی بلند کی ہے جو بالعموم غیر مقبول سمجھے جاتے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ’’آزاد غزل‘‘ کو غزل مانا جائے یا نہیں، اور ’’نثری نظم‘‘ شاعری ہے یا نثر یا کوئی ’’تیسری دنیا‘‘ جو دفعتاً کوئے ادب میں آ گھسی ہے، یہ بات تسلیم کئے بغیر نہیں بنتی کہ ایسے لوگ ممتاز ضرور ہو جاتے ہیں۔یہ الگ بات، کہ
ع بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
جدت ایک خطرناک اچھائی ہے، اور ایک طرح سے آگ کا کھیل بھی جس سے تماشائی تو محظوظ ہوتے ہیں، اور فن کار ہر لمحہ شعلوں کی زد پر ہوتا ہے۔
آگ نے آب، ہوا کر ڈالا
پھر بھی پانی سے شرارے ہارے
جدت ہمیشہ روایت سے جنم لیتی ہے اور ضروری ہے کہ وہ روایت سے منسلک رہے، ورنہ اس کی حیثیت شاخِ بریدہ سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی۔ پھر، یہ بھی حقیقت ہے کہ ثقافت کا اعلیٰ ترین مظہر زبان ہے اور زبان کی بہترین صورت شاعری ہے۔ السنہ شرقیہ میں غزل کو شاعری کا عطر کہا جاتا ہے۔ ہمارے ’’تجربہ گر‘‘ حضرات زبان سے اقرار کریں یا نہ کریں، انہیں یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے ورنہ نثر لکھ کر اسے نظم قرار دینا اور متفرق ہم وزن ابیات کو یکجا کر کے غزل کا نام دے دینا کیا ضروری ہے؟ ویسے بھی، ہمارے نثر نگاروں نے ادب کی کیا کم خدمت کی ہے؟ اور ہمارے وہ شعراء جو نظم گو کہلاتے ہیں، ان کے ہاں کیا کمتر درجے کی شاعری ہے؟ نثر میں بھی، نظموں میں بھی اور غزل میں بھی ایک بے بہا خزانہ ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ اس کے باوجود قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک اچھا نثر نگار جو مقفیٰ اور مسجع نثر لکھ سکتا ہے اور اختصار و ایجاز کا اتنا ہی لحاظ رکھ سکتا ہے، وہ شاعر کہلانے کو ترجیح کیوں دیتا ہے؟
بخشا گیا ہے سحر عجب اختصار کو
کم ہو گئی جو بات، اثر اور بڑھ گیا
اور ایک شاعر جو خوب صورت نظم تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر ’’غزل گو شاعر‘‘ کہلانا کیوں پسند کرتا ہے؟ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ شاعری زبان کی بہترین صورت ہے اور غزل شاعری کا عطر ہے۔
اک شعر تو عدیمؔ عدیم المثال ہو
اتنا تو کر سکوں کبھی مرنے سے پیش تر
میں اپنی بات کی طرف واپس آتا ہوں ... جدت وہ قابلِ قبول ہو گی جو روایت سے مربوط رہے ورنہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ نام پیدا کرنے کی بات اور ہے اور مشہور ہو جانا اور بات ہے۔ شہرت کے ساتھ اگر سابقہ یا لاحقہ’ ’بد‘‘ لگ جائے تو اس سے احتراز لازم ہے اور اس وقت لازم تر جب بات ’’تجربہ گری‘‘ کی ہو۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدیم ہاشمی میں کیا خاص بات ہے جو انہیں دوسرے تجربہ گروں سے ممتاز کرتی ہے اور’’بد‘‘ لگائے بغیر ان کی شناخت بنتی ہے! میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ تو امکانات کی تردید کرتے ہیں اور نہ روایت کی نفی کرتے ہیں۔
یہ لگتا ہی نہیں ہے اور کوئی بھی ہے دنیا میں
ترے ہوتے ہوئے سارا زمانہ بھول جاتا ہے
واقعہ در واقعہ ہے ہر کسی کی زندگی
داستاں ہی داستاں ہے، داستاں کے بعد بھی
یہاں واضح کر دوں، کہ روایت اور لکیر کی فقیری میں فرق ہے۔ میرے نزدیک وہ لوگ بر خود غلط ہیں جو روایت اور جمود کو ہم معنی گردانتے ہیں۔ ہماری تہذیب ایک زندہ تہذیب ہے، ہماری زبان ایک زندہ زبان ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اردو کا وجود فی نفسہٖ تغیر، انحراف اور جدت کا حسین مرقع ہے، میں کیسے مان لوں کہ وہ زبان جو انحراف اور انضمام کا ماحصل ہے اس کی کوئی صنف جامد ہے یا اس سے کوئی نئی صنف نہیں پھوٹے گی! بات بڑی سادہ سی ہے کہ جو نئی شاخ پھوٹی ہے، جو نئی چیز نکلی ہے، اس کا تعین اس کے مزاج اور امتیاز کے حوالے سے ہونا چاہئے، نہ یہ کہ آپ نثرِ لطیف لکھیں اور شاعر کہلانے پر مصر ہوں اور ابیات لکھ کر غزل گو کہلانا چاہیں۔ ایسی نئی اصناف کو نام بھی نیا دیں بشرطیکہ وہ واقعی اصناف ہوں اور نئی ہوں۔ پھول کو پھول، پات کو پات، جڑ کو جڑ اور شاخ کو شاخ کہیں، ورنہ آپ کی بات کوئی سمجھ نہیں پائے گا اور لوگ کل ہی آپ کو بھی بھول جائیں گے اور آپ کے تجربوں کو بھی۔
عدیم اک وہ، زمانے کا حوالہ بن کے جیتے ہیں
کسی کو ایک لمحے میں زمانہ بھول جاتا ہے
جدت کی کئی صورتیں ہیں جو ہر دور میں سامنے آتی رہی ہیں؛ خیال کی جدت، اظہار کی جدت، نفسِ مضمون کی جدت، طرزِ فکر، محاورے، لفظیات اور ترکیب سازی کی جدت، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ میں کہتا ہوں نظیرؔ اکبر آبادی اپنے وقت کا جدید شاعر تھا، جس نے عام زندگی کے مسائل اور مظاہر کو شاعری میں جگہ دی۔ جو بات آج کا شاعر کرتا ہے اور جدید کہلاتا ہے، وہ بات نظیرؔ نے اس وقت کی تھی! اور اس کے ہاں فلسفے کا بھی فقدان نہیں ہے! ’آدمی نامہ‘ کا حوالہ کافی ہو گا۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے ایک انوکھا اور اچھوتا لہجہ اختیار کیا، ایسا کہ کوئی اس کی نقل بھی نہیں کر سکا، وہ اپنے دور کا جدید شاعر تھا۔ غالبؔ نے زبان کو اسلوب دیا، اقبالؔ کی ندرتِ فکر، شوکتِ لفظی اور پروازِ تخیل آج بھی مسلمہ ہے، اس نے کون سا مضمون نہیں چھیڑا؟ کیا وہ آج بھی جدید شاعر نہیں مانا جاتا؟! حالی نے ثابت کیا کہ دقیق و عمیق خیالات اور مضامین، ضروری نہیں کہ دقیق الفاظ میں ہی ادا ہو سکیں۔ اس کے وہ مصرعے جو بادی النظر میں ’جملے‘ دکھائی دیتے ہیں نہ جانے کس قدر کانٹ چھانٹ اور کتنی ریاضت کے بعد اس شکل میں آئے ہوں گے:
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست کم ہیں اور، یاں بھائی بہت
الغرض، ہماری شعری روایت جدتوں کی روایت ہے اور عدیم ہاشمی اسی روایت کے امین ہیں۔ ان کی مکالماتی غزلیں ایسی ہیں کہ ان کی تقلید شاید ممکن نہ ہو اور زیر نظر کتاب کا بھی تتبع ہو تو سکتا ہے مگر آسانی سے نہیں! غزل ’’بنانا‘‘ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اس عمل کی وضاحت اور اپنی واردات فاضل شاعر نے دیباچے میں بیان کر دی ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ کیسے انہوں نے ایک بنائی ہوئی غزل کو بنی بنائی غزل بنا دیا ہے:
لہریں یونہی تو ریت سے سر پھوڑتی نہیں
ڈوبی ہے دل کی ناؤ، کناروں کے سامنے
رختِ سفر میں ناؤ کوئی باندھ لے عدیمؔ
طوفاں بہت ملیں گے کناروں کی اوٹ میں
یہ وہی روایت ہے اور اسی تسلسل میں ’’ترکش‘‘ کے بعد ’’مکالمہ‘‘ اور پھر ’’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘‘ وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
جدت کا ایک عظیم تر مقصد بھی ہے جو محض جدیدیت سے قطعاً مختلف ہے اور وہ ہے شاعری کو اپنے دور سے آگے لے جانے کی سعیٔ مشکور، جو ندرتِ فکر و خیال کا موجب بنتی ہے۔ اور جدتِ اظہار کا تقاضا کرتی ہے۔عدیم ہاشمی خود کو مستقبل میں دیکھنے کا خواہاں ہیں اور آنے والی نسلوں کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔ ان کی اصل منزل، سفر میں رہنا ہے۔
بچپن میں ایک صحن تھا، تھوڑا سا تھا سفر
نکلے جو صحن سے تو سفر اور بڑھ گیا
سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں، مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
عدیم ہاشمی کے ہاں پُرکاری بھی ہے اور فن کاری بھی، اور کہیں کہیں تکرار کا جو گمان گزرتا ہے وہ ان کے تجربے کا لازمی جزو ہے۔
میں نے ارادتاً فاضل شاعر کے زیادہ اشعار نقل کرنے سے گریز کیا ہے۔ آپ محسوس کر چکے ہوں گے، میں نے ان کے دیباچے سے اکتساب کیا ہے۔ پتہ نہیں اسے جدت قرار دیا جائے گا، یا فرار کا نام دیا جائے گا۔ جو بھی ہو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عدیم ہاشمی کا یہ تجربہ مشکل بھی ہے ، عجیب بھی اور کامیاب بھی اور تجربوں کی روایت کے سفر مسلسل میں اگلا قدم بھی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی (میں پھر کہوں گا، سب سے بڑی خوبی) روایت سے مربوط رہنا ہے۔
پیار کی بولی نہیں محتاج لفظوں کی عدیم
یہ زباں تو ہر طرف تھی، ہر زباں سے پیشتر
یہ محبت ہے اسے بڑھتے ہی رہنا ہے سدا
امتحاں سے پیشتر بھی، امتحاں کے بعد بھی
مجھے قوی امید ہے کہ عدیم ہاشمی کے تجربات ہی روایت کی طرف ان کے میلان کو مضبوط کریں گے۔ دیکھئے زمانہ کیا رنگ لاتا ہے!

یعقوب آسی

Post a Comment