کیفے کھچا کھچ لوگوں سے بھرا تھا۔ ہر طرح کے لوگ کیفے میں بیٹھے چائے ، کافی اور اپنی پسند کے مشروب پی رہے تھے۔ کیفے میں تمباکو نوشی کی اجازت تھی۔ اس لئے کیفے کی ساری فضا سگریٹوں کے دھویں سے بھری تھی۔

وہ بہت دیر سے کیفے میں بیٹھاچائے پر چائے اور سگریٹ پر سگریٹ پی ر ہا تھا۔ متواتر سگریٹ پینے کی وجہ سے اس کے ارد گرد اتنا دھوان اکٹھا ہو چکا تھا کہ اس کا چہرہ تقریبا دھویں میں چھپ چکا تھا۔ کیفے میں بیٹھے سب لوگوں کی نظریں اس کی طرف تھیں۔

رات دس بجے کے قریب کیفے کے مالک نے کیفے بند ہونے کی صدا لگائی تو اس نے سگریٹوں کے پیکٹ سے آخری سگریٹ نکال کر سلگانے کی کوشش کی ۔ اس نے لائیٹر ہاتھوں میں تھام کر بار بار اس کا چھوٹا سا پہیہ گھمایا لیکن چقماق کا پتھر ایک چھوٹی سی چنگاری سے شعلہ پیدا نہ کرسکا۔ اس نے لائیٹر سے مایوس ہو کر آخری سگریٹ پیکٹ میں واپس رکھی اور زیر لب بڑ بڑایا:

"اس کمبخت لائیٹر میں بھی گیس ابھی ختم ہونا تھی۔ " مسلسل چائے اور سگریٹ پینے کی وجہ سے اْس کے چہرے پر ایک عجیب سی اْداسی چھائی ہوئی تھی۔

کیفے کا مالک اْسے کئی سالوں سے جانتا تھا۔ جب سارے گاہک جا چکے تو وہ آکر اُس کے پاس بیٹھ گیا۔ کیفے میں کام کرنے والی لڑکی اور لڑکے نے کیفے کی صفائی شروع کردی۔ کیفے کے مالک نے اْس سے اْس کی سنجیدگی، خاموشی اور اْداسی کا سبب پوچھا۔

وہ سگریٹوں کے دھویں میں ڈوبا کیفے کے مالک کے سوال پر ایسے چونکا جیسے کسی نے اْسےجھنجھوڑکر گہری نیند سے جگا دیا ہو۔

کیفے کے مالک نے اْسے گہری سوچوں سے ہوش وحواس میں واپس آتے دیکھا تو کہنے لگا:

"تم آج اتنے اْدا س کیوں ہو۔۔۔؟ میں تمہیں کئی سالوں سے جانتا ہوں۔۔۔ تم تقریباٌ روزانہ کیفے پر آتے ہو۔ چائے اور سگریٹ پیتے ہو لیکن آج تک میں نے تمہیں کبھی اتنا سنجیدہ یا اس قدر اْداس نہیں دیکھا۔۔۔آخر آج ایسی کیا بات ہو گئی ہے؟"

کیفے کے مالک کا سوال سن کر اْس نے ایک طویل سرد آہ بھری لیکن اْس کے کسی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔

جواب دیتا بھی تو کیا۔ اُسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ اْس کی اْداسی اور سنجیدگی کا سبب کیاہے۔ شاید وہ مڈ لائف کرائسس سے گزر رہا تھا۔

وہ اب عمر کے اْس حصے میں تھا جہاں خواہشیں دم توڑنےلگتی ہیں اور ولولے سرد پڑ جاتے ہیں۔ جہاں انسان چند لمحوں کے لئے کسی ٹیلے پر کھڑا ہو کر اپنی زندگی کے ان نشیب و فراز کا جائزہ لیتا ہے جہاں سے گزرتے وقت وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ اْسے اس مقام سے گزرنا چاہئے یا نہیں۔

کیفے کے مالک نے اْسے یوں ٹھنڈی آہ بھرتے دیکھا تو کہنے لگا:

"ایسی گہری سوچوں سے آدمی کو گریز کرنا چاہئے جن سے اسے خود ڈر آنے لگے۔ ۔۔"

کیفے کے مالک کی بات سن کر آخر وہ اْس سے مخاطب ہوا۔

" شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔ مجھے لگتا ہے میری زندگی بے معنی ہو چکی ہے۔ مجھے اب نہ کچھ پیچھے نظر آتا ہے نہ آگے۔ میں جتنا زیادہ سوچتا ہوںزندگی میں تہہ در تہہ چھپی بے مقصدیت مجھ پراتنی زیادہ کھلتی جاتی ہے۔۔۔"

کیفے کے مالک نے اْس کی بات سنی تو کہنے لگا:

"یہ صرف تمہارا مسئلہ نہیں۔ یہ ہر مڈل کلاسیے کا مسئلہ ہے۔ وہ جوانی میں بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے اور پھر ڈھلتی عمر کے ساتھ جب ان خوابوں کی تکمیل کی امیدیں چکنا چور ہونے لگتی ہیں تو وہ کرچیاں چنتے چنتے خود کو لہولہان کر لیتا ہے۔

تم بھی آج گزرے لمحوں کے دئیے زخموں سے رستے خون کو چاٹنے کی کوشش کر رہے ہو۔"

کیفے کے مالک کی بات سن کر اْس نے کانپتے ہاتھوں سے دوبارہ پیکٹ سے سگریت نکالا اور ایک بار پھر لائیڑ سے اْسے سلگانے کی کوشش کی لیکن لائیڑ کا چقماق پھر ایک چنگاری چھوڑ نے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ کیفے کے مالک نے اپنی جیب سے لائیڑ نکال کر اْس کا سگریٹ سلگایا۔

پھراْس نے بھی اپنی جیب سے سگریٹوں کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ سلگایا اور دوبارہ اپنے دوست کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے بولا:

"اصل چیز لمحہ موجود کی صدا سننا، اْس کی صحیح تفہیم ، اور اْس سے ہم آہنگ رہنا ہے۔ جو لوگ لمحہ موجود کی صدا سنتے اور اْس سے ہم آہنگ رہتے ہیں بڑے سے بڑا زخم اْن کی روح کو گھائل نہیں کرسکتا۔ جو لوگ اس استعداد سے محروم ہوتے ہیں ۔ وہ کسی بھی لمحے کے چھوٹے سے چھوٹے چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتے۔

یہ بھی یاد رہے کہ یہ اصول صرف کسی ایک خاص فرد تک محدود نہیں۔ یہی اصول اقوام پر بھی لاگو ہوتاہے۔ جو قومیں لمحے کی صدا سننے اور اْس سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں وہ بڑے سے بڑے چیلنج سے اس طرح نبرد آزما ہوتی ہیں کہ ہر نیئے چیلنج سے نپٹنے کے بعد ان کے بانکپن اور نکھار میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔"

اْس نے کیفے کے مالک کی بات سن کر سگریٹ کا ایک لمبا کش لگایا اور کہنے لگا:

"یار تم چائےبیچتے بیچتے فلاسفر کب سے ہو گئے ہو۔ ميں سمجھتا تھا تم سارا دن چائے سگریٹ بیچتے ہواور پیسے اکٹھے کرتے ہو۔ لیکن تمہاری باتوں سے لگتا ہے تم سوچتے بھی ہو۔"

"میں سوچتا ضرور ہوں۔ لیکن تمہاری طرح نہیں۔ تم شاید بھول رہے ہو میں نے بھی تمہاری طرح یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تھی۔ لیکن میں نے سول سروس کا امتحان دینے کی بجائے یہ کیفے کھولنے کو ترجیح دی ۔ اب تم ملازمت سے فارغ ہو کر سارا دن یہاں بیٹھے چائے اور سگریٹ پی کر گزرے لمحوں کی بے رحمی کا ماتم کرتے رہتے ہو جب کہ میں ہنسی خوش اپنے گاہکوں کے ساتھ اپنا وقت گزارتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ميں زندگی کے آخری لمحے تک یہ شغل اسی جوش و جذبے کے ساتھ جاری رکھ سکتا ہوں۔"

کیفے کے مالک کی بات سن کر اْس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ جب سے یہاں بیٹھا تھا یہ اْس کے چہرے پر پھیلنے والی پہلی مسکان تھی۔

اْس کے چہرے پر پھیلتی مسکان دیکھ کر کیفے کے مالک نے اطمینان کا سانس لیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج چائے پیتے اور سگریٹوں کے کش کھینچتے وہ یہیں فوت ہو جائے گا اور اْسے خوامخواہ اْس کے سفر ِآخرت کا بندوبست کرنا پڑے گا۔

آخر وہ اُس کا دوست تھا۔ چائے سگریٹوں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن وہ ڈیپریشن سے اْس کے کیفے میں فوت ہو جائے یہ اْسے قبول نہیں تھا۔

اُسے مسکراتے دیکھ کر کیفے کے مالک کو اْس کی اور اپنی جوانی کازمانہ یاد آیا۔ تب وہ دونوں یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے طالب علم تھے۔

یونیورسٹی سے فارغ ہو کر وہ دونوں گھنٹوں انگریزی بولنے کی پریکٹس کرتے۔ اگر کوئی برطانوی یا امریکی سیاح ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اْسے کسی نہ کسی طرح گھیرلیتے تا کہ اُس کے ساتھ انگریزی بولنے کی پریکٹس کر سکیں۔

ان دنوں زبان سیکھنے کے جدید ذرائع موجود نہیں تھے۔ ان کا مشغلہ تھا کہ پڑھائی سے فارغ اوقات میں وہ ہر اُس جگہ جاتے جہاں ان کی کسی گورے سے ملاقات ہو جائے۔ تب وہ ہر گورے کو برطانوی اور امریکی سمجھتے تھے۔ لیکن جب انہیں پتہ چلتا کہ جو گورا ان کے ہاتھ لگا ہے وہ کسی اور ملک سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے انگریزی بول کرخود ان کی انگریزی خراب ہو جائے گی تو وہ فوراً اس سے جان چھڑا لیتے۔

کیفے کے مالک کا نام رضی تھا اور اس کے دوست کا نام شازی۔ رضی اور شازی ا ن کےمختصر نام تھے۔ رضی کا پورا نام رضوان تھا جو مختصر ہو کر رضی رہ گیا تھا۔ شازی کا پورا نام شہزاد تھا جو سکٹر کر شازی بن گیا تھا۔

یونیورسٹی کے زمانے میں جب بھی رضی اور شازی کے درمیان مستقبل کے بارے میں گفتگو ہوتی رضی ہمیشہ ڈگری لینے کے بعد اپنا کیفے کھولنے کی بات کرتا جب کہ شازی ہمیشہ کہتا کہ وہ مقابلے کا امتحان دے گا اور کامیابی حاصل کرکے سول سروس جوائین کرے گا۔

کیفے کے مالک نے اسے مسکراتے دیکھا تو اُس نے اْسے وہ دن یا د دلائے جب وہ گھنٹوں ایک دوسرے کے ساتھ انگریزی بولنے کے پریکٹس کیا کرتے تھے۔

ان دنوں کا ذکر آتے ہی اْس کے ارد گرد پھیلے سگریٹوں کے دْھویں کے بادل چھٹنے لگے۔ اْس نے کیفے کے مالک سے مخاطب ہوتے ہوئےکہا:

"یار رضی ۔ دیکھو تم نے کیفے کھولا۔ میں سول سرونٹ بنا۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہا۔ شادی اس لئے نہ کر سکا کہ سول سروس کا زعم مانع رہا۔ اب نہ بیوی ہے نہ بچے۔

اب میرے پاس اٹھنے بیٹھنے کی دو ہی جگہیں ہیں ۔ افسروں کا کلب جہاں سارے ریٹائرڈ افسر رات دن بیٹھے چائے اور سگریٹ پیتے رہتے ہیں ۔ یا تمہارا کیفے ۔ کلب جانے کی بجائے میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ دن رات یہاں بیٹھ کر چائے اور سگریٹ پیئوں اور وقت کٹی کروں۔

افسروں کے کلب میں سول سروس کے ساتھی اپنی ملازمت کے زمانے کے قصے سناتے رہتے ہیں جو زیادہ تر ان کی اناؤں کی شکست و ریخت کے گرد گھومتے ہیں۔

میں یہ قصے سن سن کر تنگ آ چکا ہوں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ پہلے انہوں نے کتنی بار وہ قصے سنائے ہوتے ہیں۔ ہر قصہ اس طرح سناتے ہیں جیسے پہلی بار سنا رہے ہوں۔ حالانکہ اْس سے پہلے وہ وہی قصہ کوئی درجن بار دہرا چکے ہوتے ہیں۔

کیفے کے مالک نے اس کی بات سنی تو کہنے لگا:

"ميں روازنہ ایک ہی کام کرتا ہوں۔ تقریباً گاہک بھی وہی ہوتے ہيں۔ وہ دن میں کئی بار کیفے میں آتے ہیں لیکن میں کبھی اْن سے بور نہیں ہوتا۔ وہ جب بھی میرے کیفے میں داخل ہوتے ہیں اْن کے چہرے پر ہمیشہ ایک نئی کہانی لکھی ہوتی ہے۔

چاہے وہ دن میں تین بار کیفے میں آئیں ہر بار ان کےکا چہرہ ایک نئی کہانی سنا رہا ہوتا ہے ۔ کہانی کی جزیا ت چاہے ایک جیسی ہوں لیکن ان کے سنانے کا انداز ہمیشہ مختلف ہوتا ہے۔ "

کیفے کے مالک کی بات سن کر ایک بار پھر اُس نے ٹھنڈی سانس بھری۔ اْس نے سگریٹ کا خالی پیکٹ کھولا شاید اْس ميں ابھی کوئی سگریٹ موجود ہو۔ لیکن سگریٹوں کا پیکٹ تو کب کا خالی ہو چکا تھا۔ کیفے پر کام کرنے والا لڑکا اور لڑکی بھی کب کے جا چکے تھے۔

کیفے کے مالک نے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر اُسے سگڑیٹ پیش کیا۔ اْس نے سگریٹ ہونٹوں میں دبایا تو کیفے کے مالک نے اپنے لائیٹر سے اْس کا سگریٹ سلگایا۔

"یار تم نے اچھا کیا۔ کسی نوکری کے چکر میں نہیں پڑے۔ ہم نے مقابلے کا امتحان دیا۔ اچھی نوکریاں کیں۔ سرکاری کام سے دنیا بھر کے ملکوں کے دور ے کئے ۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہے۔ بڑے بڑے خوبصورت لوگوں سے ملے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ لیکن ریٹائر منٹ کے بعد لگتا ہے کہ اپنی زندگی ردّی کی ٹوکری میں گرا کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس کی کوئی افادیت نہیں۔"

کیفے کے مالک کو لگا زندگی بھر کا دکھ اْس کی آواز میں سمٹ آیا ہے۔ سگریٹ کے دھویں کے مرغولوں کے پیچھے اْس کا چہرہ کچھ اور بجھ سا گیا۔

اُس نے اْس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر کیفے کی دیوار پر آویزاں گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: "دوست رات کے بارہ بج چکے ہیں۔ اب ہمیں چلنا چاہئے۔ "

پھر وہ دونوں اٹھے اور کیفے کا دروازہ بند کرکے سرسراتی رات کے سایوں میں ہولے ہولے قدم اٹھاتے اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دئیے۔ وہ تھوڑی دور تک ساتھ ساتھ چلتے دکھائی دئیے لیکن پھر رفتہ رفتہ رات کی تاریکی میں گم ہو گئے۔

**********

Post a Comment