مجھے معلوم ہے
نیویارک میں ،لندن میں پیرس،میئونخ، اٹلی کی گلیوں میں
بہت ہنگامہ آرائی ہوئی ہوگی
شراب و ناب چھلکانے کو
انسانوں کی ساری عصبیت کو دور کرکے
نوجوانوں کے، حسینائوں کے
کتنے ہی گروہوں نے
زمانے کی طنابیں کھینچ لی ہوں گی!
وہاں سب لوگ
اپنے سارے جذبے، دھڑکنیں دل کی
اُٹھائے اپنے ہاتھوں میں
سڑک پر رقص کرنے آگئے ہوں گے
کہیں کُوڑے کے اُوپر کوئی فاقہ مست بُڑھیا
سال ۔ کُہنہ کی گزرگاھوں سے
جاتے، بیتے لمحے دیکھتی ہوگی
کئی دیوانے اُن رسموں کے آئینوں کو
چکنا چُور کرنے
جو اُنھیں مدت سے گھیرے ہوں
نئے ماڈل کی گاڑی،شیمپئین اور واڈکا میں مست ہوکر
اپنی محبوبہ کو اگلی سیٹ پر لے کر
جہان ۔ نو سے بھی آگے گئے ہوں گے
کر ا چی کی مضافاتی نواحی پست گلیوں میں
جہاں پر کوئٹہ سے آتی برفیلی، زمستانی ہوا نے
زندگی مفلوج کردی ہے
میں اپنی تیسری دنیا کے لوگوں کی
روایت اور کلچر کے لیے
یو ر پ کے بخشے تحفے میں آئے ہوئے
" لنڈا" کے کپڑوں میں ٹھٹھرتا کپکپاتا
آج تنہا گھومتا ہوں
سا ل ۔ نو کو ڈھونڈتا ہوں
لوگ محو ۔ خواب ہیں یا
زندگی کی تلخیئوں کو کوستے ہیں
دور‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ کتوں کی آوازوں میں
سال ۔ نو کی آھٹ جاگتی ہے

سیدانورجاویدہاشمی

1 تبصرے

  1. ہاشمی صاحب بہت عمدہ نظم کہی ہے، ایک ممسلمان کے د کے ساتردھ کم مائیگی کا کرب حسن نظم ہے۔ سلامت رہیں

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں