اردو منزل کے اشتراک سےبحرین میں عالمی مشاعرہ
اقبال طارق کی کتاب"بن تمہارے کوٗی اداس نہیں " کی تقریب کی رونماٗی سفیر پاکستان اکرام اللہ محسود نے کی
تقریب کی صدارت معروف شاعرہ اور اردو منزل کی مدیراعلی صبیحہ صبا نے

رپورٹ ریاض شاہد بحرین


اس نے خط میں لکھا ہے اشکوں سے
بن تمہارے اداس کوئی نہیں
محبتیں جب حد سے بڑھ جائیں تو انہیں نبھانے کا انداز بھی انوکھا ہوتا ہے، اور ان میں شکوے کا انداز بھی منفرد ، اور یہی انفرادیت ہر شخص کی محبت بھری کہانی کو الگ کرتی ہے، اور یہی انفرادیت شاعری طلب کرتی ہے، ورنہ دنیا میں موضوع ہی کتنے ہیں، بس اندازِ بیاں ، شاعر کو انفرادیت اور اس کی شاعری کو دوسرے شعراء سے الگ کرتا ہے، اوراس طرح ہی کوئی شاعر اپنی الگ پہچان اور مقام بناتا ہے، اوریہی انفرادیت اقبال طارق کی شاعری میں بھی ہے
اس نے خط میں لکھا ہے اشکوں سے
بن تمہارے اداس کوئی نہیں
اگر کتاب کے نام کو دیکھیں تو بہت عجیب لگتا ہے، اور یہ کہنا پڑتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے، لیکن جب آ پ پورا شعر پڑھیں تو یقینی طور پر آپ کے لب پر واہ آجائے کیونکہ اس شعر میں انفرادیت بھی ہے اور سچائی بھی اور سچ یہ ہے کہ ہم یہاں پردیس میں کسی بھی حال میں رہیں، ہمارے حال میں کتنا ہی زہر کیوں نہ شامل ہو اپنی آواز اور قلم میں شہد بھر کر دیس میں بسنے والوں سے یہی کہتے ہیں کہ ہم سب خیریت سے ہیں، ہم بہت خوش ہیں، ہم اپنی اداسیاں اپنے چاہنے والوں سے اس لیے چھپاتے ہیں کہ کہیں ہماری یہ اداسیاں انہیں بھی اداس نہ کردیں، اور اسی بات کا لب لباب ہے ’’بن تمہارے اداس کوئی نہیں‘‘ اور یہ کہنے کے لیے ہمیں کتنے اشک پینے پڑتے ہیں، یہ مجھے دور دیس میں بسنے والوں کو بتانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اسے چھپانے کی ضرورت ہے مگر یہ سچ دو مصرعوں میں پرونے کا حوصلہ صرف اقبال طارق کو ہوا اور کیا خوب ہوا، یہ بات 8 مئی شب 9 بجے شروع ہونے والی اقبال طارق کے تیسرے مجموعے ’’بن تمہارے اداس کوئی نہیں‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں شامل مردو زن کے لبوں پر تھی، اس تقریب کو چار چاند لگانے کے لئے دبئی سے اردو منزل ڈاٹ کام کے مدیران صبیحہ صبا اور سید صغیر احمد جعفری پاکستان سے فرحت پروین، سعودیہ سے طارق محمود طارق، قدسیہ ندیم لالی اور شہزادضیاء تشریف لائے تھے، جبکہ مقامی شعراء میں محمد انور بھٹی، انور مائل، ریاض شاہد احمد عادل ،شرف خواجہ ، اشعر حسن اور اقبال طارق شامل تھے،
تقریب کے مہمانِ خصوصی سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان اکرام اللہ محسود جبکہ مہمانانِ اعزاز کرنل (ریٹائرڈ) فیض احمد ملک تھے ۔ سفارتخانہ پاکستان کے ویلفیئر اتاشی رانا محمد رفیق بھی اس پروگرام کی رونق کو دوبالا کرنے کے لئے تشریف فرما تھے، میزبان تقریب جناب رضوان ممتاز تھے۔
اقبال طارق کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بحرین کے مستند شاعر احمد عادل نے کہا کہ مولانا الطاف حسیں حالی نے شاعری کو دوسرے فنون لطیفہ سے کہیں بڑھ کر فن قرار دیا ہے، اور ابنِ خلدون کہتے ہیں کہ پانی کو اگر سونے کے گلاس میں پیش کیا جائے تو اس ماہیت تبدیل نہیں ہوگی ، اور عام پیالے میں بھی وہ پانی ہی رہے گا، اور کھاری پانی سونے کے پیالے میں بھی کھاری ہی رہے گا، اس طرح ایک اچھا شاعر کہیں بھی لکھا ہو تو آپ کے دل کو مٹھی میں جکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ ایک عام شعر کو اگر آپ سونے کی تختی پر بھی کنندہ کر دیں تو بھی وہ عام ہی رہے گا، اس تناظر میں اگر اقبال طارق کی شاعری کو دیکھا جائے تو بلا شبہ آپ بے ساختہ واہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے، اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ اقبال طارق کو داد دیں، احمد عادل نے مقدمہ شعر و شاعری کے حوالے دے کر اقبال طارق کی شاعری کو پرکھا اور آخر میں اپنی پسند کے بے شمار اشعار سنائے، جن میں سے چند ایک نذرِ قارئین ہیں

آئنہ دم بخود ہے اور میں بھی
ایک ٹوٹے کہ بے خودی جائے
درد کے بے صدا دریچے میں
آہ میری تری فغاں خاموش
احمد عادل کےبعد سعودیہ سے تشریف لائے ہوئے انقلابی شاعر جناب طارق محمود طارق نے اقبال طارق کے مجموعے ’’ بن تمارے اداس کوئی نہیں ‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایاکہ۔
صحرائے عرب میں مقیم ادبی درخشاں ستاروں کی اگر بات کی جائے تو ان میں سے ایک درخشاں ستارہ اقبال طارق ہے، جو بیرونِ ملک روزی روٹی کی خاطر تو آئے مگر یہاں آ کر روزی روٹی کی بجائے ادبی خدمات کو اپنا شعار بنا یا، اقبال طارق کی شاعری میں عالم گردوپیش کے بے شمار موجودات نظر آتے ہیں، ان کی آپ بیتی جگ بیتی کا منظر پیش کرتی ہے، ان کے کلام کو پڑھ کر شگفتکی اور متانت کا احساس ہوتا ہے، اقبال طارق کی شاعری علامتی شاعری ہے اسمیں فکر و احساس ، خلوص، انسانی المیے، محبتیں ، نفرتیں، فطرت ، کائنات اور فلسفہ الغرض اقبال طارق کی شاعری میں کیانہیں ہے، واضح تراکیب و استعارت سے بھر پور علامتی شاعری ہے جس میں غمِ جاناں بھی اور غمِ دنیا بھی ہے، اس میں نئی خوبصورت ردیفیں بھی ہیں اور قافیے بھی خوبصورت بندشیں بھی ہیں اور قابلِ فخر خیال وفن بھی ، سلاست بھی اور وضاحت بھی، آخر میں انہوں نے کتاب میں سے اپنی پسند کے اشعار نذرِ محفل کئے
سبھی کو اپنی اپنی جاں پیاری
ہمیں محبوب جانیں دوستوں کی
اپنے سینے میں سبھی لائے ہیں لاوا لیکن
ہم سے دیوانے تخیل کی ضیاء لائے ہیں
چراغِ سب ہیں ہمیں روشنی بھی کرنی ہے
اور اس طرح سے بسر زندگی بھی کرنی ہے
سحر گزیدہ ہیں ہم سے نہ بات کر ورنہ
جواں ہے شامِ وفا شاعری بھی کرنی ہے
اس کے بعد سفیرِ پاکستان اکرام اللہ محسود ، رضوان ممتاز، احمد عادل اور اقبال طارق کو اسٹیج پر دعوت دی گئی، اقبال طارق نے تالیوں کی گونج میں سفیرِ پاکستان کو اپنا شعری مجموعہ ’’ بن تمہارے اداس کوئی نہیں ‘‘ پیش کیا، پھر مائیک پر آکر اقبال طارق نے سفیرِ پاکستان، میزبانِ تقریب رضوان ممتاز، ملک مسعودالرحمن ، مقامی اور بین الاقوامی شعرائے اکرام کے علاوہ حاضرینِ محفل کا شکریہ ادا کیا اور کتاب میں سے چیدہ چیدہ کلام نذرِ محفل کیا،
مرے اندر زمانے بولتے ہیں
تخیل کے دریچے کھولتے ہیں
ابھی تک عہدِ ماضی کے وہ نغمے
مرے اشعار میں رس گھولتے ہیں
تو نہ سمجھے گا یہ بات بھی ہو سکتی ہے
قتل پل پل میں مری ذات بھی ہو سکتی ہے
داغِ حسرت میرے دامن سے مٹانے کے لئے
میری ان آنکھوں سے برسات بھی ہو سکتی ہے
اب میں پوشاک میں فقیری میں بھی آ سکتا ہوں
میرے کاسے میں تری ذات بھی ہو سکتی ہے
اب سرِ شام یہی سوچ کے سو جاتا ہوں
اپنے ماضی سے ملاقات بھی ہو سکتی ہے
عشق مذہب ہے کوئی دین نہ مسلک طارق
آدمی کی تو کوئی ذات بھی ہو سکتی ہے
ظلمتِ شب ہے پاس کوئی نہیں
پھر سحر کی اساس کوئی نہیں
تو کنارہ عطا کرے تو کرے
ناخدا سے تو آس کو نہیں
تشنگی تجھ میں ہے زمانے کی
میرے دریا میں پیاس کوئی نہیں
چشمِ ساقی کا فیض ہے سارا
آج خالی گلاس کوئی نہیں
فکر کے وہ لباس کیسے بنے
جس کے من میں کپاس کوئی نہیں
نفرتوں کے غبار میں گم ہیں
شہر میں بدحواس کوئی نہیں
اس نے خط میں لکھا ہے اشکوں سے
بن تمہارے اداس کوئی نہیں
محفل مشاعرہ
اشعر حسن کی نظامت میں باقاعدہ مشاعرے کا آغاز ہوا، شعرائے اکرام کے کلام سے اقتباسات:
انور بھٹی
ہمیں وفاؤں کے بدلے جفا کے خار ملے
وہ خوش نصیب ہیں جن کو جہاں میں پیار ملے
بغیر ان کے ادھورے رہیں ہیں عمر تمام
جسے جہاں میں ملے ہم کو بے قرار ملے
انور مائل
دستکِ محبت نے عشق کو جگایا ہے
زندگی کے گلشن میں کوئی مسکرایا ہے
لوگ تو سبھی چپ ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
شہر میں یہ کس نے پھر کس کا گھر جلایا ہے
ریاض شاھد
تری نگاہ کے مسجون ہو گئے کیسے
جو ہوش میں تھے وہ مجنون ہو گئے کیسے
جنہیں غرور تھا اپنے ہی قدوقامت پر
وہ خاکِ شہر کے ممنون ہو گئے کیسے
سمجھ میں آتا نہیں ہے کہ ماجرا کیا ہے
جو نون غنّہ تھے وہ نون ہو گئے کیسے
اشعر حسن
جو چراغ تیرے فراق میں سرِ شام ہم نے جلائے تھے
وہ ہواؤں سے تو نہ بجھ سکے میرے آنسوؤں نے بجھا دیئے
کسی تشنہ لب کے غرور کی یہ ادا بھی کیسی عجیب ہے
وہ جو چند جام تھے قرض کے وہ ہی ساقیوں کو پلا دیئے
اشرف خواجہ
گزر گئی جو بہر کیف سو غنیمت ہے
خیالِ فردا امنگوں کی اک علامت ہے
بہم جو آج ہے شاکر ہوں کہ میسر ہے
قناعتوں سے بھی بڑھ کر کوئی کیا نعمت ہے
شیراز ضیاء
سمجھ میں آیا کہ کتنی رفعتِ اقبال طارق ہے
معیاری شعر کہنا عادتِ اقبال طارق ہے
سخن کے اس ستارے کا نظارہ کر لیا جب سے
ردیفوں ، قافیوں کو حسرتِ اقبال طارق ہے
قدسیہ ندیم لالی
ملے ہیں دوستوں سے زحم کتنے
کبھی کوئی شکایت کی ہے ہم نے
اٹھی ہیں انگلیاں سچ بولنے پر
کہ یہ کیسی جسارت کی ہے ہم نے
جب تک کہ سماعت میں وہ نام نہیں آیا
بیمارِ محبت کو آرام نہیں آیا
اقبال طارق
خواب میں ٹکڑوں میں تم کو کردیا تقسیم کیا
یا خود اپنی ذات کی ہونے لگی تفہیم کیا
گر الف سمجھو گے تو سب کچھ سمجھ آ جائے گا
ورنہ تم سمجھو گے کیسے لام کیا ہے میم کیا
چار سو دشمن کھڑے ہیں آج کل طارق ترے
شہر میں کرنے لگے ہو آئینے تقسیم کیا
سامنے اک آئنہ ہے دیکھئے
عمر بھر جو کچھ کیا ہے دیکھئے
کربلا کا درد سینے میں لئے
دہر میں جو کربلا ہے دیکھئے
مال و زر کی دوستی ہے بے ثبات
ایک جھوٹا آسرا ہے دیکھئے
شب گزاری کا اک بہانہ یار
ہجر کی داستان میں کیا ہے
کوئی تیشہ بدست ہی جانے
برف کی اس چٹان میں کیا ہے
احمد عادل
گو حسیں لمحوں کو دوری سے فنا ملتی ہے
جذبۂ شوق کو ایسے ہی بقا ملتی ہے
وہی جھونکا جو بجھاتا ہے سمٹتے سے چراغ
اسی جھونکے سے الاؤ کو ہوا ملتی ہے
اہلِ قلم اک زمانے سے یونہی لکھتے آئے ہیں
وہی قصہ جو مفلس و نادار کے مابین چلا آیا ہے
ایک ایک حرف لکھ خونِ جگر سے لیکن
کچھ نہیں بدلا بجا کہتے ہو
کچھ نہ بدلے گا میں جو بھی لکھوں
ہیں عجیب قلب و نظر مرے، مری آگہی بھی عجیب ہے
میں نے خود میں دھونی رمائی ہے، یہ قلندری بھی عجیب ہے
بڑے چاؤ سے جو بنائے تھے انہیں توڑا اپنے ہی ہاتھ سے
وہ تھے میرے اپنے ہی بت سبھی میری آزری بھی عجیب ہے
سید صغیر احمد جعفری
مرے وطن کی مجھے جب بھی یاد آتی ہے
کرن وفا کی مرے دل میں جگمگاتی ہے
مجھے بھی صحرا میں برسوں گزر گئے لیکن
زمین اپنی مجھے پھر بھی یاد آتی ہے
قائد کی جستجو سے وطن مل گیا ہمیں
سینچا ہو لہو سے چمن مل گیا ہمیں
پرچم نے سر اٹھا کے یہ اعلان کر دیا
آزاد زندگی کا چلن مل گیا ہمیں
چہرہ ترا تو خواب کی تعبیر ہو گیا
حیرت میں آ کے میں کوئی تصویر ہو گیا
جا زندگی کے سارے ہنر تیرے نام ہیں
یہ دل بھی تیرے نام کی تفسیر ہو گیا
دل و نظر میں محبت کے سلسلے تھے بہت
وہ اور دورکہ ہم میں بھی حوصلے تھے بہت
جو دیکھنا ہی نہ چاہیں تو بات اور سہی
ہماری ذات میں ورنہ تو آئینے تھے بہت
طارق محمود طارق
نہ کبھی دوستوں میں غیبت تھی
نہ دلوں میں کبھی کدورت تھی
اس بناوٹ کے دور سے پہلے
زندگی کتنی خوبصورت تھی
سنا تھا کچھ بشر کاٹے گئے ہیں
جو دیکھا تو نگر کاٹے گئے ہیں
بشارت دے رہے تھے جو ثمر کی
ہی سارے شجر کاٹے گئے ہیں
یہ بستی کو چشموں کی ہے بستی
یہاں پر دیدہ ور کاٹے گئے ہیں
اے مرے ہمسفر نہیں ہوتا
دشت ہے دشت گھر نہیں ہوتا
سارے مجبوریوں کے سودے ہیں
کوئی یوں در بدر نہیں ہوتا
خون بھر بھر کے چراغوں میں جلایا جائے
ظلمتِ شب کو بحر طور مٹایا جائے
داغ بن جاتا ہے وہ قوم کی پیشانی پر
کسی کم ظرف کو حاکم نہ بنایا جائے
میرا ایمان کہ دل ، دل سے ملانا واجب
تیرا دستور کہ بس ہاتھ ملایا جائے
میرے قاتل کی اذیت کو یہی کافی ہے
شہرِ قاتل میں مرا سوگ منایا جائے
آخر میں چار کتابوں، لفظ بنے تصویر، لفظوں کا شہر، تیری صدا آئی، تخیل، اردو منزل کی چیف ایڈیٹر اور صدرِ مشاعرہ محترمہ صبیحہ صبا کو دعوتِ کلام دی گئی، تو انہوں نے اقبال طارق کو ان کے شعری مجموعے کی رسمِ اجراء پر مبارکباد پیش کی ، سفیرِ پاکستان اکرام اللہ محسود ، رضوان ممتاز اور آرگنائزنگ کمیٹی کو دادِ تحسین دی کہ انہوں نے اتنی خوبصورت شام کا انعقاد کیا۔اور اپنا کلام سنایا
صبیحہ صبا
چہرے کا ہر کرب دکھائی دیتا ہے
خاموشی کا شور سنائی دیتا ہے
پھر ملنے کی کوئی تو تدبیر کرو
جانم یہ دل روز دہائی دیتا ہے
سچے دل تو دنیا میں بھر شاد ہوئے
میلا دل تو روز صفائی دیتا ہے
اپنے کام کو ہم تو جاری رکھیں گے
چھپتا کب ہے کام دکھائی دیتا ہے
میرا چہرہ ہے آئینہ میرا
میں نے خود سے نکل کے دیکھ لیا
پھر محبت کی وسعتیں دیکھیں
جب محبت میں ڈھل کے دیکھ لیا
ہے وہی اضطراب کا عالم
میں نے پہلو بدل کے دیکھ لیا
خیر کی فصل اگا کر اسے پکنے کے لئے
اک توکل پہ میں چھوڑوںہوں کسانوں کی طرح
یہ سوچا ہی نہیں تھا میرے پیارے لوگو
تم گزر جاؤ گے چپکے سے زمانوں کی طرح
جہاں میں بولنے والوں کا خوب چرچا ہے
ہے ان کے واسطے مشکل سوال چپ رہنا
یہ لازمی تو نہیں ہے کہ بولتے جاؤ
مرے تو سامنے اپنی مثال چپ رہنا

Post a Comment