تم اک ایسے شخص کو پہچانتے ہو یا نہیں

جس کا چہرہ بولتا ہے اور لب گویا نہیں

صبح کو چہرے پہ تھے دو زخم آنکھوں کی جگہ

رات کچھ رونے کی خواہش تھی مگر رویا نہیں

پھیلتا جاتا ہےخود روسبزہ غم چار سو

کھیت وہ کاٹوں گا جو میں نے کبھی بویا نہیں

وہ بچھڑ کے اور بھی شدت سے یاد آنے لگا

میں نے جس کو کھو دیا دل نے اسے کھویا نہیں

خواب دیکھا تھا کوئی بچپن کی کچی نیند میں

دوستوں پھر آج تک میں چین سے سویا نہین

زینتِ ملبوس ہستی بڑھ گئی جس داغ سے

زندگی بھر میں نے پھر اس داغ کو دھویا نہیں

مرتضی برلاس

Post a Comment