رفتہ رفتہ منظر شب تاب بھی آ جائیں گے
نیند تو آ جائے پہلے ،خواب بھی آ جائیں گے
کیا پتا تھا خون کے آنسو رلا دینگے مجھے
اس کہانی میں کچھ ایسے باب بھی آ جائیں گے
خشک آنکھوں نے تو شاید یہ کبھی سوچا نہ تھا
ایک دن صحراؤں میں سیلاب بھی آ جائیں گے
حوصلے یونہی اگر بڑھتے گئے تو دیکھنا
ساحلوں تک ایک دن صلیب بھی آ جائیں گے
بس ذرا ملنے تو دو میری تباہی کی خبر
دل دکھانے کے لئے احباب بھی آ جائیں گے
آپ کی بزم مہزب میں نیا ہوں شاد میں
آتے آتے بزم کے آداب بھی آ جائیں گے
خوشبیر سنگھ شاد

Post a Comment