چلتے چلتے رات ہو چکی تھی. نہ چاند نہ تارے. گھپ اندھیرے نے مجھے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور میں خوبصورتی کی تلاش میں چلتا چلا جا رہا تھا. پھر اچانک مجھے اپنے اردگرد بہت سارے ٹمٹماتے جگنو دکھائی دینے لگے. انہیں بھی شاید میرے چہرے پر پھیلے گھبراہٹ کے آثار نظر آئے جو وہ پہلے اردگرد... اور پھر آہستہ آہستہ میرے سامنے اکٹھے ہونے لگے. میں نے سوچا کہ ابھی یہ سب اونچے اونچے قہقہے لگاکر میری گھبراہٹ کا مذاق اڑائیں گے... لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا.

جگنوؤں کے ایک جگہ اکٹھے ہونے سے میرے آگے اتنی روشنی ہوگئی تھی جیسے ایک دیا سا جل اٹھا ہو. اب میرے آگے گھپ اندھیرا بالکل نہیں تھا...مجھے اب جگنوؤں کے علاوہ بھی اردگرد کچھ نظر آنے لگے تھا. ان سب نے ملکر میرے آگے چند قطاریں بنائیں... پھر مڑکر میری طرف دیکھا اور میرے آگے آگے چلنا شروع کردیا... کسی فوجی دستے کی طرح. مگر ان ننھے سپاہیوں نے بندوقوں کے بجائے اپنی پیٹھ پر چھوٹی چھوٹی لالٹینیں اٹھا رکھی تھیں. ان کا ایک نظر میری طرف دیکھنا اور پھر چل پڑنا ایسا تھا جیسے مجھے کہا ہو کہ گھبراؤ نہیں... ہماری روشنی میں ہمارے ساتھ آؤ ... ہم تمہیں راستہ دکھائیں گے. میں نے اس ایک جلتے بجھتے دیے برابر روشنی میں ان کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کردیا. سورج کی پہلی کرنیں دھرتی کو چھوتیں، اس سے پہلے ہی انہوں نے مجھ سے اجازت مانگی...تب ہم ایک خوبصورت نہر کے پاس پہنچ چکے تھے. چند ہی لمحوں میں جگنوؤں کی روشنی پر سورج کی روشنی حاوی ہوجانی تھی اور اس سے پہلے کہ ایسا ہو، انہوں نے مجھے الوداع کہا.

میں نے نہر کے صاف و شفاف پانی سے ہاتھ منہ دھویا اور چند گھونٹ پانی پیا. پھر سستانے کے لئے میں وہیں ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا. چند گھڑیوں بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ ایک خشک درخت تھا. اس میں کوئی پھل تھا اور نہ پھول اور نہ ہی کوئی پتے جو سایا ہی مہیا کرتے... صرف اور صرف سوکھی ٹہنیاں. اردگرد دیکھا تو معلوم ہوا کہ باقی درخت بھی ایسے ہی تھے. میں بہت حیران ہوا اور افسردہ بھی. مجھے افسردہ دیکھکر نہر رک گئی. اس نے کہا: مجھے پتہ ہے کہ تم کیوں افسردہ ہو...اسی لئے نا کہ یہ درخت میرے کنارے ہوتے ہوئے بھی خشک کیوں ہیں?! پھر وہ درخت بھی بول پڑے. کہنے لگے: ہم بے جڑ کے درخت ہیں. ہم بھی خوبصورتی کی تلاش میں نکلے تھے اور پہاڑوں کے دامن میں بہتی ہوئی اس خوبصورت نہر کو اپنی منزل سمجھکر یہیں کے ہوکر رہ گئے. لیکن ہم بھول گئے تھے کہ بے جڑ کے درخت میں کبھی بہار نہیں آتی. نہر بھی اداس ہوگئی، لیکن چل پڑی. اس نے کہا: میں مزید نہیں رک سکتی. میں ان درختوں کے پاس جا رہی ہوں جو اپنی جڑوں کے ساتھ جڑے ہیں. میں نے انہیں سوکھنے نہیں دینا. اگر میں _ان کے دکھ میں یہیں ٹھہر گئی تو اور بہت سارے درخت بھی بے برگ و بار ہوجائیں گے.

زاہد احمد

Post a Comment